(ترجمہ: اگرچہ دنیا میں بہت سارے نبی ہوئے ہیں۔ لیکن علم وعرفان میں میں کسی سے کم نہیں ہوں)
سامعین گرامی! اس طرح کے دعاوی سے مرزاغلام احمد کی تحریرات بھری پری ہیں جن کی تفصیل کا یہ موقع نہیں۔ یہاںمیں صرف اس جانب توجہ دلانا چاہوں گا کہ کسی بھی دینی منصب پر فائز ہونے والے کے لئے کم ازکم کن صفات کا حامل ہونا ضروری ہے اور اس طرح کے کسی منصب پر فائز ہونے کا دعویٰ کرنے والے کے لئے سب سے پہلے کس طرح کا ثبوت پیش کرنا ضروری ہے۔
آنحضرتﷺ کا اسوۂ مبارکہ
سامعین عظام! سید الاولین والآخرین سیدنا ومولانا محمد رسول اﷲﷺ کا شاندار اسوۂ مبارکہ ہمارے پیش نظر ہے۔ آپ نے اعلان نبوت سے پہلے اور بعد میں ایسی صاف ستھری زندگی اور کمال اخلاق کا مظاہرہ فرمایا کہ آپﷺ کا بڑے سے بڑا دشمن بھی آپ کے ذاتی کردار اور صدق وامانت پر انگلی اٹھانے کی جرأت نہ کر سکا۔ آپﷺ نے جب صفاء کی پہاڑی سے پہلی مرتبہ مکے والوں کو توحید کا پیغام سنایا تو اس سے پہلے اپنی تصدیق بھی کرائی اور جب سب نے بیک آواز کہہ دیا کہ ’’ماجربنا علیک الاصدقاً (بخاری شریف ص۷۰۲)‘‘ یعنی ہمارے تجربے میں آپ ہمیشہ سچے ہی ثابت ہوئے تو آپ نے ان میں توحید ورسالت کا اعلان فرمایا۔ اب ہمیں مرزاغلام احمد قادیانی کے بلند بانگ دعاوی کا بھی اسی تناظر میں جائزہ لینا چاہئے کہ جب مرزاقادیانی نعوذ باﷲ! خود کو آنحضرتﷺ کا ظل اور بروز کہتا ہے ’’اور اپنی بعثت کو آنحضرتﷺ ہی کی بعثت ثانیہ قرار دیتا ہے۔‘‘ (خطبہ الہامیہ ص۱۸۰، خزائن ج۱۶ ص۲۷۰)
تو یہ بحث تو بعد میں کی جائے گی کہ ظلی بروزی نبی ہوسکتا ہے یا نہیں؟ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان پر زندہ موجود ہیں یا نہیں؟ اور امام مہدیؓ ظاہر ہوچکے ہیں یا نہیں؟ پہلے یہ دیکھا جائے گا کہ اس طرح کے دعوے کرنے والا سچا بھی ہے یا نہیں؟ اگر سچا ثابت ہو جائے تو بحث آگے بڑھ سکتی ہے اور اگر جھوٹا ثابت ہو تو اگلی بحث بے کار ہے۔ کیونکہ جھوٹ کے ساتھ نبوت وولایت کاکوئی درجہ بھی جمع نہیں ہوسکتا۔ خود مرزاقادیانی نے ایک جگہ لکھا ہے: ’’ظاہر ہے کہ جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر اعتبار نہیں رہتا۔‘‘
(چشمۂ معرفت ص۲۲۲، خزائن ج۲۳ ص۲۳۱)