جمعیت علماء ہند نے ۱۹۵۶ء میں ایک فتویٰ جاری کیا جس میں کہا گیا: ’’قادیانی جماعت مع اپنے بانی اور تمام ان پارٹیوں کے جو مرزاصاحب پر اعتماد رکھتی ہیں۔ اسلام سے خارج ہے اور مرتد کے حکم میں ہیں۔ نہ ان سے رشتہ مناکحت جائز ہے، نہ رشتہ موانست ومودت، نہ انہیں مسلمانوں کے مقابر میں دفن کرنا جائز ہے، نہ ان سے وہ معاملات وتعلقات رکھنے جائز ہیں جو مسلمانوں سے رکھے جاسکتے ہیں۔‘‘
اس فتویٰ پر شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ، حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ، مجاہد ملت حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ، محدث کبیر حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی وغیرہ علماء کے دستخط ہیں۔ اسی طرح کے فتاویٰ مظاہر علوم اور ندوۃ العلماء لکھنؤ سے جاری کئے گئے۔
مشہور اہل حدیث عالم مولانا ثناء اﷲ امرتسریؒ نے فتویٰ دیا: ’’مرزاصاحب اور ان کی جماعت چونکہ عقائد باطلہ کی حامل ہے اور اصول اسلام سے منحرف ہے۔ اس لئے وہ کافر ہے اور دین محمدیﷺ سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔‘‘
مشہور بریلوی عالم مولانا احمد رضا خاںؒ نے فتویٰ دیتے ہوئے کہا: ’’علماء کرام حرمین شریفین نے قادیانی کی نسبت بالاتفاق فرمایا کہ جو اس کے کافر ہونے کے بارے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔ اس صورت میں فرض قطعی ہے کہ تمام مسلمان موت وحیات کے سب علاقے اس سے قطع کریں۔‘‘
علاوہ ازیں عالم اسلام کے ممتاز مفتیان اور دینی اداروں کی طرف سے بھی قادیانیوں کی تکفیر کے فتاویٰ اور فیصلے جاری کئے گئے۔ جامعہ ازہر نے ۱۹۳۹ء میں تحقیقات کے بعد قادیانیوں کے کفر وارتداد کا اعلان کیا اور حکم جاری کر دیا کہ آئندہ کسی قادیانی کو جامعہ ازہر میں داخلہ نہ دیا جائے۔
۱۹۷۴ء میں ایک سو چار مسلم ملکوں کی نمائندہ تنظیم رابطۂ عالم اسلامی نے بھی ایک طویل تجویز منظور کر کے قادیانیوں کے کفر وارتداد اور ان کی سیاسی وسماجی تخریب کاریوں کو واشگاف کیا۔
اسی طرح سعودی عرب کے سب سے اعلیٰ اختیاراتی فقہی ادارے المجمع الفقہی نے فیصلہ کرتے ہوئے یہ دو ٹوک الفاظ لکھے: ’’عقیدۂ قادیانیت جو احمدیت کے نام سے بھی موسوم ہے اسلام سے مکمل خارج ہے۔ اس کے پیروکار کافر اور مرتد ہیں۔ اگرچہ یہ لوگ مسلمانوں کو گمراہ