کا انجام نہایت ہی برا ہوگا اور جس کسی دوسرے شخص سے بیاہی جائے گی وہ روز نکاح سے ڈھائی سال تک، اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال تک فوت ہو جائے گا اور ان کے گھر پر تفرقہ اور تنگی اور مصیبت پڑے گی اور درمیان زمانہ میں بھی اس دختر کے لئے کئی کراہیت اور غم کے امر پیش آئیں گے۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۵۷،۱۵۸)
مرزاقادیانی کی یہ پیشین گوئی بھی سراسر جھوٹ اور غلط ثابت ہوئی۔ جس پیش گوئی کو مرزاقادیانی نے اپنے صدق وکذب کا معیار بنایا تھا۔ اس کا انجام بالکل واضح طور پر کھل کر سامنے آگیا۔ چاہئے تو یہ تھا کہ مرزاقادیانی اپنے کہنے کے مطابق پیشین گوئی کے غلط ثابت ہونے پر تائب ہوکر امتی کا طریقہ اختیار کرتے لیکن یہ ان کی قسمت میں نہ تھا۔ تاویلات کا غلط سہارا لے کر اپنے آپ اور مریدوں کو مطمئن کرنے لگے۔
خوش نصیب رہی محمدی بیگم جس کو اﷲتعالیٰ نے پچاس سالہ بوڑھے کی رفاقت کی اذیت سے بچالیا۔ جو دنیا میں کثیر امراض خبیثہ کا شکار تھا اور سوکن کی موجودگی میں عسرت وتنگی کی زندگی گزارنی پڑتی اور مرزاقادیانی کی موت کے بعد ایک لمبا عرصہ بیوگی کے مصائب برداشت کرنے پڑتے اور آخرت کی مار ان سب مصائب سے بڑھ کر ہوتی۔ اس کے برعکس محمدی بیگم نے اپنے شوہر سلطان محمد کے ساتھ مدت العمر خوشحالی کے ساتھ پرسکون زندگی بسر کی جو کم ہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔ سلطان محمد ایک صحت مند اور ایک خوبرو نوجوان تھا اور فوج کے اچھے عہدے پر فائز تھا۔ اس کے ایک دوست سید محمد شریف صاحب ساکن گھڑیالہ ضلع لائل پور نے اس کے حالات ۱۹۳۰ء میں دریافت کئے تو اس نے جواب میں لکھا: ’’السلام علیکم! میں تادم تحریر تندرست اور بفضل خداوند ہوں۔ خدا کے فضل سے فوجی ملازمت کے وقت بھی تندرست رہا ہوں۔ میں اس وقت بعہدہ رسالداری پنشن پر ہوں۔ ایک سو پینتیس روپے ماہوار پنشن ملتی ہے۔ گورنمنٹ کی طرف سے پانچ مربع اراضی عطا ہوئی ہے۔ قصبہ پٹی میں میری جدی زمین بھی میرے حصہ میں آئی ہے جو قریباً سوبیگھہ ہے۔ ضلع شیخوپورہ میں بھی تین مربع زمین ہے۔ میرے چھ لڑکے ہیں جن میں سے ایک لائل پور میں پڑھتا ہے۔ حکومت کی طرف سے اس کو پچپن روپے ماہوار وظیفہ ملتا ہے۔ دوسرا لڑکا پٹی میں تعلیم پاتا ہے۔ میں خدا کے فضل سے اہل سنت والجماعت ہوں۔ میں احمدی (قادیانی) مذہب کو برا سمجھتا ہوں۔ اس کا پیرو نہیں ہوں۔ اس کادین جھوٹا سمجھتا ہوں۔ والسلام! تابعدار سلطان بیگ، پنشنر پٹی ضلع لائل پور۔‘‘ (مطبوعہ اہل حدیث مورخہ ۱۴؍نومبر ۱۹۳۰ئ)
’’فاعتبروا یا اولی الابصار‘‘