تمام قصبہ قادیان اجڑا ہوا نظر آتا تھا۔ جیسے عذاب الٰہی سے تباہ شدہ بستیاں۔ غرض یہ کہ طاعون سے قادیان کے بچے رہنے کی پیشین گوئی بھی جھوٹ نکلی جو بقول مرزا قادیانی ان کے کذب کی کھلی ہوئی دلیل ہے۔
مرزاقادیانی کی حسرت جو دل ہی دل میں رہ گئی
مرزاقادیانی کے قریبی رشتہ داروں میں ایک احمد بیگ ہوشیارپوری تھے جن کی ایک نوعمر بچی محمدی بیگم تھی۔ اسی بچی سے نکاح کی خواہش مرزاقادیانی دل ہی دل میں لے گئے۔ جب کہ ان کا دعویٰ تھا کہ محمدی بیگم سے ان کا نکاح ہونا ایک خدائی الہام کے مطابق ہے، جو ہو کر رہے گا۔ احمد بیگ (محمدی بیگم کے والد) اپنے ایک خانگی کام کے لئے مرزاقادیانی کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس وقت تو مرزاقادیانی نے ان کو یہ کہہ کر ٹال دیا کہ ہم کوئی کام بغیر استخارہ کے اور اﷲ کی مرضی معلوم کئے بغیر نہیں کرتے۔ کچھ دن بعد مرزاقادیانی نے اس سلوک اور مروت کا معاوضہ ان کی دختر کلاں محمدی بیگم کا رشتہ اپنے لئے مانگا۔ اس وقت مرزاقادیانی کی عمر پچاس سال کی تھی۔
اس نے نہ صرف بڑی نفرت سے مرزاقادیانی کے اس مطالبہ کو ٹھکرایا اور اس کے دل میں مرزاقادیانی کی جو رہی سہی عزت تھی وہ بھی خاک میں مل گئی، بلکہ احمد بیگ نے مرزاقادیانی کا رشتہ والا خط اخبارات میں شائع کرادیا۔ چونکہ اس خط کی عبارت کا تعلق پیش گوئی سے تھا اس لئے وہ ذیل میں درج کیا جارہا ہے۔
’’خداتعالیٰ نے اپنے کلام پاک سے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ اگر آپ اپنی دختر کلاں کا رشتہ میرے ساتھ منظور نہ کریں گے تو آپ کے لئے دوسری جگہ کرنا ہرگز مبارک نہ ہوگا اور اس کا انجام درد، تکلیف اور موت ہوگی۔ یہ دونوں طرف برکت اور موت کی ایسی ہیں کہ جن کو آزمانے کے بعد میرا صدق یا کذب معلوم ہو سکتا ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۷۹،۲۸۰، خزائن ج۵ ص ایضاً، اخبار نور افشاں مورخہ ۱۰؍مئی ۱۸۸۸ئ)
اپنے اس خدائی دعویٰ کا ذکر مرزاقادیانی نے اس طرح کیا: ’’اس خدائے قادر المطلق نے مجھے فرمایا کہ اس شخص (مرزااحمد بیگ) کی دختر کلاں (محمدی بیگم) کے نکاح کے لئے سلسلۂ جنبانی کرادر ان کو کہہ دے کہ تمام سلوک اور مروت تم سے اسی شرط سے کیا جائے گا اور یہ نکاح تمہارے لئے موجب برکت اور ایک رحمت کا نشان ہوگا اور ان تمام رحمتوں اور برکتوں سے حصہ پاؤ گے جو اشتہار مورخہ ۲۲؍فروری ۱۸۸۸ء میں درج ہے۔ لیکن اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی