کر دیں۔ رفتہ رفتہ یہ مرض زور پکڑتا گیا۔ لیکن قصبہ قادیان ابھی تک محفوظ تھا اور وہاں وبا کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔ مرزاقادیانی نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پروپیگنڈہ شروع کر دیا کہ چونکہ مرزاقادیانی کی نبوت کو جھٹلایا جارہا ہے۔ اس لئے اﷲتعالیٰ نے یہ عذاب بھیجا ہے اور قادیان چونکہ مرزاقادیانی کامسکن اور ان کی نبوت کا مرکز ہے۔ اس لئے وہاں عذاب نہیں آیا اور نہ آئے گا بلکہ کوئی باہر کا آدمی قادیان میں آجائے تو وہ بھی اس عذاب سے بچارہے گا اور مزید دعویٰ کیاکہ جن، جن بستیوں میں مرزاقادیانی کے مرید موجود ہیں وہ سارے مقامات اور ان کے باشندے اس بلائے عظیم سے محفوظ رہیں گے۔ آپ نے بڑے اعتماد اور یقین کے ساتھ یہ دعویٰ فرمایا: ’’جہاں ایک بھی راست باز قادیانی ہوگا اس جگہ کو خداتعالیٰ ہر غضب سے بچالے گا۔‘‘
آگے فرماتے ہیں: ’’(اے مخالفو!) تم لوگ بھی مل کر ایسی پیش گوئی کرو جن سے قادیان کے پیغمبر کا دعویٰ باطل ہو جائے اور اس کی دو ہی صورتیں ہیں، یا یہ کہ لاہور اور امرتسر طاعون کے حملہ سے محفوظ رہیںیا یہ کہ قادیان طاعون میں مبتلا ہو جائے۔ خدا نے اس اکیلے صادق (مرزاقادیانی) کے طفیل قادیان کوجس میں اقسام اقسام کے لوگ تھے اپنی خاص حفاظت میں لے لیا۔‘‘ (الہامات مرزا ص۱۰۹، ۱۱۲، ۱۱۳)
مرزاقادیانی کے اس پروپیگنڈہ نے طاعون سے ڈرے اور سہمے ہوئے لوگوں کو قادیانیت کی طرف کھینچنے میں بڑا کام کیا۔ اسی دوران انہوں نے ایک کتاب لکھی جس کا نام کشتی نوح رکھا، جس سے یہ بتانا مقصود تھا کہ جوکوئی میری نبوت کو تسلیم کرے گا وہ اس کشتی میں سوار ہوکر طوفان نوح کی طرح اس عذاب سے محفوظ رہے گا۔
لیکن خداوند تعالیٰ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اسی طاعون کے ذریعہ ہی اﷲتعالیٰ مرزاقادیانی کی تکذیب کا انتظام کر چکا تھا۔ طاعون کی بلانے بڑھتے بڑھتے قادیان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ مرزاقادیانی کے پر غرور اور بلند دعوؤں کے باوجود پلیگ نے قادیان کی صفائی شروع کر دی۔
دسمبر ۱۹۰۲ء کا اجتماع محض طاعون کی وجہ سے مؤقوف کرنا پڑا۔ پھر مئی ۱۹۰۴ء میں قادیانی اسکول طاعون کی وجہ سے بند کرنا پڑا۔ طاعون کی شدت کا یہ حال تھا کہ لوگ پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ لوگوں نے اپنے گھر چھوڑ کر کھیتوں میں ڈیرے لگائے تھے۔