’’چونکہ آتھم نے اپنے دل میں اسلام قبول کر لیا۔ اس لئے نہیں مرا۔‘‘
اس پر آتھم نے خط لکھا جو اخبار وفادار ماہ ستمبر ۱۸۹۴ء میں چھپا۔
’’میں خدا کے فضل سے زندہ اور سلامت ہوں۔ میں آپ کی توجہ کتاب (نزول مسیح ص۸۱،۸۲) کی طرف دلانا چاہتا ہوں جو میری نسبت اور دیگر صاحبان کی موت کی نسبت پیش گوئی ہے۔ اس سے شروع کر کے جو کچھ گزرا ان کو معلوم ہے اور مرزاقادیانی کہتے تھے کہ آتھم نے اسلام قبول کر لیا۔ اس لئے میں نہیں مرا۔ خیر ان کو اختیار ہے جو چاہیں سو تاویل کریں۔ کون کس کو روک سکتا ہے۔ میں دل سے اور ظاہر سے بھی عیسائی تھا اور اب بھی عیسائی ہوں۔ اس پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں۔‘‘
جب آتھم کا انتقال ہوگیا تو قادیانی شور مچانے لگے۔ بعض نادان کہتے ہیں کہ آتھم اپنے میعاد میں نہیں مرا لیکن وہ جانتے ہیں کہ مرتو گیا۔ میعاد اور غیرمیعاد کی مدت فضول ہے۔ بالآخر مر تو گیا۔ (گویا اگر مرزاقادیانی کی پیش گوئی نہ ہوتی تو آتھم نہ مرتا، ہرگز نہ مرتا اور کبھی نہ مرتا!)
پسر موعود کی پیش گوئی
۱۸۸۶ء میں مرزاقادیانی کی بیوی حاملہ تھی۔ اس وقت انہوں نے پیش گوئی کی: ’’خداوند کریم نے جو ہر چیز پر قادر ہے، مجھ کو اپنے الہام سے فرمایا کہ میں تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں۔ خدا نے کہا تادین اسلام کا شرف کلام اﷲ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوتا۔ لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں کرتا ہوں تاکہ وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں اور تاکہ انہیں جو خدا، خدا کے دین، اس کی کتاب، اس کے رسول کو انکار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ایک کھلی نشانی ملے ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا۔ وہ تیرے ہی تخم، تیری ہی ذریت سے ہوگا خوب صورت، پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے۔ اس کانام بشیر بھی ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے، اس کے ساتھ فضل ہے،وہ بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ علوم ظاہری اور باطنی سے پر کیا جائے گا۔ وہ تین کو چار کرنے والا ہے۔‘‘
(ملخص اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ئ، مندرجہ تبلیغ رسالت ج۱ ص۵۸، مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۱۰۱)
اس اشتہار میں جس زور وشور کے ساتھ مذکورہ لڑکے کی پیشین گوئی کرتے ہوئے، اسے خدائے اسلام اور رسول خدا اور خود مرزا کے صاحب الہام ہونے بلکہ خداتعالیٰ کے قادر وتوانا ہونے کی زبردست دلیل گردانا گیا ہے، وہ محتاج تشریح نہیں ہے۔ مگر افسوس کہ اس حمل سے