ہوئی۔ نوبت گالی گلوچ، اشتہار بازی اور مقدمات تک جاپہنچی۔ ان تمام معرکوں میں سب سے زیادہ مشہور واقعہ عبداﷲ آتھم پادری کا ہے۔ مرزاقادیانی نے اس سے مناظرہ کیا اور پھر یہ پیش گوئی کی کہ وہ فلاں تاریخ تک مر جائے گا۔ چنانچہ مرزاقادیانی (جنگ مقدس ص۱۸۸،۱۸۹، خزائن ج۶ ص۲۹۱،۲۹۲) میں لکھتے ہیں: ’’میں اس وقت اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیش گوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک جھوٹ پر ہے۔ وہ پندرہ ماہ کے عرصہ میں آج کی تاریخ سے بسزائے موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر ایک سزا اٹھانے کو تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا جائے اور رسوا کیا جائے۔ میرے گلے میں رسہ ڈال دیا جائے۔ مجھ کو پھانسی دی جائے۔ ہر ایک بات کے لئے تیار ہوں اور میں اﷲ جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ضرور ایسا ہی کرے گا، ضرور کرے گا، ضرور کرے گا۔ زمین وآسان تو ٹل جائیں پر اس کی باتیں نہ ٹلیں گی۔‘‘
عبداﷲ آتھم، پیشین گوئی کی آخری تاریخ ۵؍ستمبر ۱۸۹۴ء تک صحیح وسلامت زندہ رہا۔ قادیانیوں کے چہرے فق ہوگئے۔ اوّل پیش گوئی کے غلط ہونے کا رنج، دوسرے غیروں کے طعنوںاور ذلت ورسوائی کا غم۔ قادیان میں ساری رات کہرام مچا رہا۔ لوگ چیخ چیخ کر نمازوں میں روتے رہے اور دعائیں کرتے رہے۔ یا اﷲ! آتھم کو ماردے، یا اﷲ! آتھم کو ماردے۔ اے خداوند! ہمیں رسوا نہ کیجئے۔ لوگوں کو یقین تھا کہ آج سورج غروب نہیں ہوگا کہ آتھم مر جائے گا۔ مگر جب سورج غروب ہوگیا تو لوگوں کے دل ڈولنے لگے۔ رحیم بخش ایم۔اے اپنے والد ماسٹر قادر بخش سے بیان کرتے ہیں۔ اس وقت مجھے کوئی گھبراہٹ نہیں تھی۔ ہاں! فکر اور حیرانی ضرور تھی۔ لیکن جس وقت حضور نے تقریر فرمائی اور ابتلاؤں کی حقیقت بتائی تو طبیعت بشاش ہوگئی اور انشراح صدر پیدا ہوگا اور ایمان تازہ ہوگیا۔ ماسٹر قادر بخش صاحب مزید بیان کرتے ہیں کہ میں نے امرتسر جاکر عبداﷲ آتھم کو خود دیکھا۔ عیسائی اس کو گاڑی میں بٹھائے ہوئے بڑی دھوم دھام سے بازاروں میں لئے پھرتے تھے۔ لیکن اسے دیکھ کر یہ سمجھ گیا کہ واقعہ میں یہ مرگیا ہے اور صرف اس کا جنازہ لئے پھرتے ہیں۔ آج نہیں تو کل مرجائے گا۔‘‘
(الحکم قادیان ج۲۵ نمبر۳۴، مورخہ ۷؍ستمبر ۱۹۲۳ئ)
جب مخالفین نے شور مچایا اور لعنت وملامت کی کہ مرزاقادیانی کی آتھم کے بارے میں پیش گوئی پوری نہ ہوئی اور آتھم صحیح سلامت زندہ ہے تو مرزاقادیانی نے اس کی یہ تاویل فرمائی۔