ہیں۔‘‘ لیکن قادیانیوں کے نزدیک کسی بھی شخص کا ایمان اس وقت تک معتبر نہیں جب تک وہ اﷲ کی ربوبیت کے اقرار وحضرت محمدﷺ کی رسالت کے ساتھ مرزاغلام احمد کو خدا کا نبی اور رسول تسلیم نہ کرے۔ یہ کلمے میں کتنی بڑی کھلی تحریف معنوی اور توہین ہے۔ کلمہ شریف کی اس سے بھی بڑھ کر تحریف کی ہے جو لفظی ہے۔ مرزاناصر کے دورۂ افریقہ پر تصویری کتاب "Africa Speaks" پر احمدیہ سنٹرل مسجد نائیجیریا کا فوٹو موجود ہے، جس پر یہ کلمہ لکھا ہوا ہے۔ ’’لا الہ الا اﷲ احمد رسول اﷲ‘‘ اس تحریف شدہ کلمہ میں محمد کا لفظ حذف کر دیا گیا اور احمد کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔
الہامات مرزا
قرآن مجیدکے اصول کے مطابق اﷲتعالیٰ نے اپنے ہر نبی کو اسی قوم کی زبان میں وحی بھیجی جس قوم کی طرف وہ نبی بنا کر بھیجا گیا۔ ’’وما ارسلنا من رسول الا بلسان قومہ لیبیّن لہم‘‘ {اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اپنی قوم کی زبان میں ہی تاکہ انہیں کھول کر بتائے} قرآن مجید کے اس صاف اصول کے خلاف مرزاقادیانی کو مختلف زبانوں میں الہام ہوئے، حق تو یہ ہے کہ مرزاقادیانی کو پنجابی زبان میں وحی ہوتی۔ کیونکہ وہ پنجاب کے رہنے والے تھے۔ لیکن پنجابی زبان اس شرف سے محروم ہی رہی۔ یہ کتنی غیر معقول بات ہے کہ نبی تو پنجابی ہو اور اس کا الہام کسی دوسری زبان میں ہو۔ چنانچہ مرزاقادیانی تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ بات غیرمعقول اور بیہودہ ہے کہ انسان کی اصل زبان تو کوئی ہو اور الہام اس کو کسی اور زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں تکلیف مالایطاق ہے اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا جو انسانی سمجھ سے بالاتر ہے۔‘‘ (چشمہ معرفت ص۲۰، خزائن ج۲۳ ص۲۱۸)
مرزاقادیانی کا دعویٰ ہے کہ میری وحی اور الہامات قرآن پاک کی طرح ہیں۔ لیکن اگر آپ مرزاقادیانی کے الہامات کا سرسری جائزہ لیں گے تو یہ بات کھل کر سامنے آئے گی کہ مرزاقادیانی کے کتنے ہی الہامات ایسے ہیں جن کو وہ خود بھی نہ سمجھ سکتے تھے۔ چنانچہ مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’زیادہ تر تعجب کی بات یہ ہے کہ بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں بھی ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ واقفیت نہیں جیسے انگریزی سنسکرت یا عبرانی وغیرہ۔‘‘
(نزول مسیح ص۵۷، خزائن ج۱۸ ص۴۳۵)
غور فرمائیے! مرزاقادیانی جس زبان کو خود نہیں جانتے اس زبان کے الہام کو کیا سمجھتے