حضرت زیدؓ کے قبیلہ والوں کو خبر ہوئی کہ زیدؓ مکہ میں ہیں تو آپ کو لینے کے لئے آنحضرتﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور درخواست کی کہ آپ جتنی دین چاہیں لے لیں۔ مگر ہمارے لڑکے زید کو ہمارے حوالے کر دیں۔ اس پر آنحضرتﷺ نے ارشاد فرمایا تھا: ’’اسألکم انتشہدوا ان لا الہ الا اﷲ وانی خاتم انبیائہ ورسلہ وارسلہ معکم (مستدرک حاکم ج۳ ص۲۱۴)‘‘ {میں تم سے صرف یہ چاہتا ہوں کہ تم یہ گواہی دو کہ اﷲ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ شہادت دو کہ میں (آنحضرتﷺ) تمام انبیاء اور رسولوں کے سلسلہ کو ختم کرنے والا ہوں۔ پھر میں زید کو تمہارے ساتھ بھیج دوں گا۔ (یہ آپﷺ کی بعثت کے بعد کا واقعہ ہے)}
دیکھئے کس وضاحت سے حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام نے عقیدۂ ختم نبوت کو کلمہ شہادت میں شامل فرمایا ہے۔ اس لئے یہ عقیدہ ایسا نہیں ہے کہ اسے یوں ہی نظر انداز کر دیا جائے۔ آنحضرتﷺ کی اس وضاحت کے بعد قادیانیوں کی ان ساری کوششوں کا قلع قمع ہو جاتا ہے جو وہ اس عظیم عقیدہ کی اہمیت گھٹانے کے لئے عموماً سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
علامہ اقبال مرحوم کا تجزیہ
حضرات گرامی! یہاں میں مناسب سمجھتا ہوں کہ مشہور مفکر اور دانشور علامہ محمد اقبال مرحوم کا ایک وقیع تجزیہ پیش کروں۔ جس سے مسئلہ کی نوعیت اور اہمیت پوری طرح واضح ہو جاتی ہے۔ علامہ موصوف فرماتے ہیں: ’’اسلام لازماً ایک دینی جماعت ہے جس کے حدود مقرر ہیں۔ یعنی وحدت الوہیت پر ایمان، انبیاء پر ایمان اور رسول کریمﷺ کی ختم رسالت پر ایمان، دراصل یہ آخری یقین ہی وہ حقیقت ہے جو مسلم اور غیرمسلم کے درمیان وجہ امتیاز ہے اور اس امر کے لئے فیصلہ کن ہے کہ فردیا گروہ ملت اسلامیہ میں شامل ہے یا نہیں۔ مثلاً برہمو سماج خدا پر یقین رکھتے ہیں اور رسول کریم کو خدا کا پیغمبر مانتے ہیں۔ لیکن انہیں ملت اسلامیہ میں شمار نہیں کیا جاسکتا۔ کیونکہ قادیانیوں کی طرح وہ انبیاء کے ذریعہ وحی کے تسلسل پر ایمان رکھتے ہیں اور رسول کریم کی ختم نبوت کو نہیں مانتے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے کوئی اسلامی فرقہ اس حد فاصل کو عبور کرنے کی جسارت نہیں کر سکا۔ ایران میں بہائیوں نے ختم نبوت کے اصول کو صریحاً جھٹلایا۔ لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ وہ الگ جماعت ہیں اور مسلمانوں میں شامل نہیں ہیں۔ ہمارا ایمان ہے کہ اسلام بحیثیت دین کے خدا کی طرف سے ظاہر ہوا۔ لیکن اسلام بحیثیت سوسائٹی یا ملت کے رسول