یعنی ایمان کے لئے ضروری ہے کہ تمام ضروریات دین کو دل سے تسلیم کیا جائے اور کتاب وسنت سے ثابت شدہ متواتر اور قطعی احکامات پر یقین رکھا جائے۔ اگر ان میں سے کسی ایک قطعی عقیدہ پر بھی ایمان نہ رہے تو پھر آدمی مؤمن نہیں رہ سکتا۔ دسویں صدی کے مشہور عالم (جنہیں خود قادیانی بھی مجدد تسلیم کرتے ہیں) ملاّ علی قاریؒ ارشاد فرماتے ہیں: ’’اعلم ان المراد باہل القبلۃ الذین اتفقوا علی ماہو من ضرورات الدین کحدوث العالم وحشر الاجساد وعلم اﷲ تعالیٰ بالکلیات والجزئیات وما اشبہ ذلک المسائل المہمات (شرح فقہ اکبر:۱۸۵)‘‘ {جاننا چاہئے کہ اہل قبلہ (مسلمان) وہ لوگ ہیں جو دین کے ضروری عقائد سے متفق ہوں۔ مثلاً دنیا کا حادث ہونا، اور میدان حشر میں دوبارہ اجساد کا جمع کیا جانا، اور اﷲتعالیٰ کا علم تمام جزئیات وکلیات کو محیط ہونا، اور ان کے مشابہ دین کے اہم مسائل۔}
محض کلمہ پڑھنا کافی نہیں
سامعین گرامی! اس وضاحت سے صاف معلوم ہوگیا کہ مسلمان ہونے کے لئے محض کلمہ طیبہ زبان سے پڑھ لینا کافی نہیں ہے۔ بلکہ تمام ایمانیات پر یقین رکھنا لازم ہے۔ آج قادیانی جماعت کے لوگ عام مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے زبانی طور پر کلمہ طیبہ پڑھتے ہیں۔ اپنی دوکانوں، نشست گاہوں وغیرہ پر کلمہ کے اسٹیکر لگا کر اپنے کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور علماء کا شکوہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’’دیکھئے کلمہ پڑھنے کے باوجود ہمیں دائرہ اسلام سے خارج کیا جارہا ہے۔‘‘ اس لئے یہ بات ہر مسلمان کو معلوم ہوجانی چاہئے کہ آدمی کا کلمہ طیبہ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ پڑھ لینا اس وقت تک مفید نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ کلمہ کے تقاضوں کو قبول نہ کرے اور ان تقاضوں میں ایک اہم ترین تقاضا یہ ہے کہ آنحضرتﷺ کی ختم نبوت بلا کسی تاویل وتوجیہہ کے قبول کی جائے۔ عقیدۂ ختم نبوت کو تسلیم کئے بغیر کلمہ پڑھنا بے سود ہے۔
عقیدۂ ختم نبوت جزو ایمان ہے
سامعین عالی مقام! خود پیغمبر آخر الزمان حضرت محمد رسول اﷲﷺ کے ایک ارشاد سے عقیدۂ ختم نبوت کا جزو ایمان اور ضروری ہونا معلوم ہوتا ہے۔ جو آپﷺ نے حضرت زید ابن حارثہؓ کے واقعہ کے ضمن میں ارشاد فرمایا۔ واقعہ یہ تھا کہ حضرت زیدؓ کو کچھ شرارت پسندوں نے اغوا کر کے مکہ میں لا کر بیچ دیا تھا۔ شدہ شدہ آپ آنحضرتﷺ کی غلامی میں آگئے۔ کسی طرح