M!
’’الحمدﷲ رب العالمین، والصلوٰۃ والسلام علیٰ سیدنا محمد خاتم الانبیاء والمرسلین، وعلیٰ آلہ واصحابہ اجمعین۰ اما بعد!‘‘
حاضرین گرامی مرتبت، حضرات علماء کرام اور سامعین عظام!
دہلی کے باغیرت اور باحمیت مسلمان قابل مبارکباد ہیں جن کی توجہ اور دینی فکر مندی کی بدولت آج دوسری عظیم الشان ’’تحفظ ختم نبوت کانفرنس‘‘ کا انعقاد عمل میں آرہا ہے۔ اس عظیم دینی کانفرنس کی صدارت کے گراںقدر اعزاز سے مجھے نواز کر آپ حضرات نے جس محبت وخلوص کا ثبوت دیا ہے۔ اس پر میں تہہ دل سے مشکور ہوں اور امید کرتا ہوں کہ ہمارا یہ دینی اجتماع اپنے مسلمان بھائیوں میں صحیح اسلامی عقائد کی اشاعت اور غلط اور باطل قسم کے نظریات سے حفاظت کا ذریعہ بنے گا۔ انشاء اﷲ تعالی! اﷲ رب العزت اسے ہر اعتبار سے مقبول فرمائے۔ آمین!
حضرات گرامی! آج مجھے مختصر وقت میں کانفرنس کے اصل موضوع سے متعلق کچھ بنیادی اور اصولی باتیں عرض کرنی ہیں۔ جن کا لحاظ کرنے سے قادیانیوں کے بے سروپا شبہات وتلبیسات کا بآسانی ازالہ ہوسکتا ہے۔
مذہب اسلام کے حدود وشرائط
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا میں ہر جماعت اور اہل مذہب کو یہ فطری حق حاصل ہے کہ وہ اپنی جماعت کے حدود وشرائط متعین کریں۔ کسی دوسرے کو اس میں خواہ مخواہ دخل اندازی کا حق نہیں ہوتا۔ اسلام نے بھی اسی فطری حق کا استعمال کرتے ہوئے اپنے حدود خود متعین کئے ہیں اور اعلان کیا ہے کہ جوان حدود کا پابند رہے گا وہ تو مسلمان کہلائے گا اور جو ان شرائط کا خیال نہیں رکھے گا وہ مسلمان نہیں کہلایا جاسکتا۔ ان حدود وشرائط کا خلاصہ قرآن کریم میں اس طرح بیان فرمایا گیا: ’’یا ایہا الذین آمنوا آمنوا باﷲ ورسولہ والکتٰب الذی نزل علی رسولہ والکتٰب الذی انزل من قبل ومن یکفر باﷲ وملئکتہ وکتبہ ورسلہ والیوم الآخر فقد ضل ضلالاً بعیداً (النسائ:۱۳۶)‘‘ {اے ایمان والو! یقین لائو اﷲ پر اس کے رسول پر اور اس کتاب پر جو نازل کی تھی پہلے اور جو یقین نہ رکھے اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر اور کتابوں پر اور رسولوں پر اور قیامت کے دن پر وہ بہک کر بہت دور جا پڑا۔} (حضرت شیخ الہندؒ)