کہ اَمِیْنُ ہٰذِہِ الْاُمَّۃِ۱؎یہ اِس اُمت کے امین ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ امانت کی صفت تھی۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ یہ وصف خلفائے راشدین اور دوسروں میں نہیں تھا بات یہ ہے کہ یہ وصف اُن میں ایک عجیب و غریب انداز میں نمایاں تھا۔وَأقْضَاہُمْ عَلِیٌّ۲؎ فیصلے کرنے کے اعتبار سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی صفت سب سے زیادہ نمایاں تھی حالانکہ دوسروں میں بھی فیصلہ کرنے کی صلاحیت تھی۔ حضرت صدیق اکبر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہما کے فیصلے مشہور ہیں۔ حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا کہ وہ ''اَزہَدْ''ہیں۳؎ یعنی سب سے زیادہ زاہد ہیں۔ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایاأَعْلَمُهُمْ بِالْحَلاَلِ وَالْحَرَامِ کہ وہ سب سے بڑے مفتی ہیں۔۴؎فتوے کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ نے اُن کو ایک نمایاں علم دیاہے۔ اسی طریقے پر حضرت اُبی ابن کعب رضی اللہ عنہ کو ''اَقرأ'' کہا گیا یعنی وہ سب سے بڑے قاری ہیں،تو جب حضور ﷺ نےان سے سے پوچھا توانہوں نے کہا: ''اَللہُ وَرَسُوْلُہٗ اَعْلَمُ'' صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک عادت تھی کہ باوجود معلوم ہونے کے ''اللہ ورسولہ اعلم'' کہتے تھے۔ اس لیے کہ پوچھنے کا مفہوم یہ ہے کہ آپ کچھ بتلانا چاہتے ہیں، جب آپ بتلانا چاہتے تو طلب پیدا کررہے ہیں۔ جب طلب پیدا کررہے ہیں تو طلب کا اظہار ہونا چاہیے۔ ایسا نہیں کہ آپ کوکہنے کی ضرورت نہیں ہے ہم کو پہلے سے معلوم ہے۔ یہ طریقہ ادب کے خلاف ہے۔ اس لیے جب حضور ﷺ حضراتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین سے کوئی بات پوچھتے تو معلوم ہونے کے باوجود صحابہ اُس کو اللہ اور رسول کی طرف منسوب کرتے اور کہتے کہ ''اللہ اور اُس کے رسول زیادہ جانتے ہیں''
-----------------------------------------------------
۱؎:حوالۂ سابق ۔ ۲؎ :سنن ابن ماجہ:۱۵۴۔ ۳؎:المطالب العالیۃ لا بن حجر:۴۱۰۰۔ ۴؎ :سنن ترمذی:۴۱۵۹۔