ڈوبنے پر افسوس تو ہوگا ہی لیکن اُس سے زیادہ اُس آدمی پر افسوس ہوگا کہ وہ کھڑا رہا اور قدرت ہونے کے باوجود اُس نے بچے کو نہیں بچایا۔ اگر یہ معلوم ہوجائے کہ پکڑنے کی استعداد کے باوجود نہیں پکڑا، یہ پکڑ سکتا تھا، اس کو پکڑنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ اُس سے کہا جائے کہ بچہ تمہارے سامنے ڈوب گیا، تم اُس کا ہاتھ نہیں پکڑسکتے تھے؟اب وہ کہے کہ میرا بچہ تو ہے نہیں۔ جیسے اِس پر غصہ آتا ہے ایسے ہی حق تعالیٰ جل جلالہ، کو اُن لوگوں تک دعوت اور امانت نہ پہنچنے کی وجہ سے مسلمانوں پر خفگی و ناراضگی ہوتی ہے۔ کروڑہا آدمی بغیر کلمہ پاک اور بغیر ایمان کے مررہے ہیں۔ یہ مسلمان اس طرح اس کے ذمہ دار ہیں۔ اللہ تعالیٰ کافروں کو مسلط کرکے اس طرح اس کی بھی سزا دے دیں گے کہ ِان کی گردنیں کاٹو، ان کے مالوں کو چھینو، ان کی دکانوں کو جلاؤ۔ اس لیے فرمایا کہ دنیا میں اس اُمت کی سزا قتل ہے کہ قتل کرنے میں دُشمن ان پر مسلط ہوگا اور اس اُمت کی سزا فتنے ہیں کہ ان کو مختلف فتنوں میں گھیرا جائے گا اور زلزلے ہیں کہ زلزلوں سے ان کو ہلاک کیا جائے گا۔
جو آدمی ان تک دین پہنچانے کی دعوت اور محنت کرے گا حق تعالیٰ شانہ، حشر کے وقت اُس کی وکالت فرمائیں گے اور سب کی سزا میں سے اُس کو نکال دیں گے۔ اُس نے اس فریضہ کو ادا کیا جس کی وجہ سے اللہ تبارک وتعالیٰ ناراض ہیں ،اُس سے وہ بچ گیا اور اگر آدمی نے اپنی ذات سے اطاعت و فرمانبرداری کی اور اس کام کو نہیں کیا تو دنیا میں اللہ تبارک وتعالیٰ کا مسلمانوں کے ساتھ میں سزا کا ضابطہ عام ہے تو عام طور پر سزا میں ایسا آدمی بھی داخل ہوجاتا ہے ۔
حضور ﷺنے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے جبرئیل! فلاں شہر کو پلٹ دو۔ جبرئیل علیہ السلام اس شہر کو پلٹنے کے واسطے آئے تو وہاں پر ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ اللہ کا ایسا بندہ ہے جس سے کبھی اللہ کی نافرمانی نہیں ہوئی۔ جبرئیل علیہ السلام بارگاہِ ایزدی میں پہنچے اور کہنے