ایک مرتبہ حضور ﷺکے سامنے حضراتِ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے دُشمنوں کی زیادتی کا ذکر کیا تو فرمایا کہ تم تو جلدی کررہے ہو، تم سے پہلے والوں کے ساتھ ایسا ہوا کہ لوہے کی کنگیوں کے ذریعہ اُن کے گوشت کی بوٹیاں بنائی گئی، کسی کے تن پر آرا چلایا گیا۔۱؎اور زیادتی اس طرح بھی کی گئ کہ کسی کو زندہ آگ میں ڈال دیا گیا۔۲؎کسی کوچت لٹاکر ہاتھ اور سینے میں کیلیں ٹھونک دی گئیں۔ جیسا کہ فرعون کی بیوی حضرت آسیہ کے بارے میں مشہور ہے۔۳؎ ہمیشہ یہ ظلم و زیادتی اسلام لانے والوں پر، اسلام نہ لانے والوں کی ہے تاکہ وہ لوگ اسلام کو چھوڑیں۔
حضور ﷺسے پہلے کی یہ تاریخ ہے کہ جب بھی نبی آتے اور اسلام کی دعوت دیتے تو نبیوں کے ساتھ اور نبیوں پر ایمان لانے والوں پر ظلم و زیادتی اور زبردستی ہوتی کہ اسے چھوڑ دو۔ اسلام چھوڑ نے پر کفر نے ہمیشہ زبردستی کی۔
جب یہ سارے واقعات بعد میں آنے والوں کے سامنے آتے ہیں تو وہ یہ سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں کہ یقینا اسلام میں جان ہے جس کی وجہ سے ان لوگوں نے اتنی تکالیف برداشت کیں۔ اس سے قبل کوئی دوسرا آدمی کہے یہ کفار اپنی طرف سے کہہ دیتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلا، اسلام زبردستی پھیلایا گیا ہے، اسلام جبر کے ساتھ پھیلایا گیا ہے۔ ہمیشہ اسلام کو چھوڑنے پر جبر کیا گیا، آپ یہ قاعدہ یاد رکھ لیجیے اور پوری تاریخ اس پر گواہ ہے۔
قرآن پاک میں اس کا بیان ہے:
قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِ،النَّارِ ذَاتِ الْوَقُودِ،إِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌ،وَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِينَ شُهُودٌ ۴؎
-----------------------------------------------------
۱؎: صحیح البخاری:۳۴۱۶۔ ۲؎ : صحیح مسلم:۷۷۰۳۔ ۳؎: تفسیر ابنِ کثیر: ۸ / ۳۸۷۔ ۴؎:البروج:۴تا۷۔