۹… ’’کذّبوا باٰتنا وکانوا بہا یستہزؤن فسیکفیکہم اﷲویردہا الیک لا تبدیل لکلمات اﷲ ان ربک فعال لما یرید انت معی وانا معک عسیٰ ان یبعثک ربک مقاماً محمودا‘‘ یعنی انہوں نے ہماری نشانیوں کو جھٹلایا اور پہلے سے ہنسی کر رہے تھے۔ سو خداتعالیٰ ان سے سب کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں تمہارا مددگار ہوگا اور انجام کار اس کی اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس لائے گا۔ کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال سکے۔ تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو چاہے وہی ہو جاتا ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۶،۲۸۷، خزائن ج۵ ص۲۸۶،۲۸۷)
۱۰… ’’میری اس پیش گوئی میں ایک نہیں بلکہ چھ دعوے ہیں:
اوّل… نکاح کے وقت تک میرا زندہ رہنا۔
دوم… نکاح کے وقت تک اس لڑکی کے باپ کا یقینی زندہ رہنا۔
سوم… پھر نکاح کے بعد اس لڑکی کے باپ کا جلدی مرنا جو تین برس تک نہیں پہنچے گا۔
چہارم… اس کے خاوند کا اڑھائی برس کے عرصہ تک مر جانا۔
پنجم… اس وقت تک کہ میں اس سے نکاح کروں۔ اس لڑکی کا زندہ رہنا۔
ششم… پھر آخر یہ کہ بیوہ ہونے کے بعد تمام رسموں کو توڑ کر بوجہ سخت مخالفت اس کے اقارب کے میرے نکاح میں آنا۔
اب آپ ایمان سے کہیں کہ کیا یہ باتیں انسان کے اختیار میں ہے اور ذرا اپنے دل کو تھام کر سوچ لیں۔ کیا ایسی پیش گوئی سچ ہونے کی حالت میں انسان کا فعل ہوسکتا ہے۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۵، خزائن ج۵ ص ایضاً)
ایک اور الہام مرزاقادیانی کا سنئے! کہتے ہیں کہ: ’’خدانے مجھے کہا ہے کہ ہم نے تیرا نکاح محمدی بیگم کے ساتھ کر دیا۔ الہام یہ ہے۔ ’’انا زوجناکہا‘‘ (تذکرہ ص۲۴۴، طبع سوم)
۱۱… ہم نے تیرا نکاح اس سے کر دیا اور یہی عبارت مرزائیوںکے قرآن یعنی (تذکرہ ص۲۸۰، طبع سوم) پر بھی موجود ہے۔
نتیجہ… مرزاقادیانی اس پیش گوئی میں دوسری پیش گوئیوں کی طرح جھوٹا نکلا اور یہ پیش گوئی جس کو اپنی صداقت کا نشان ٹھہرایا تھا وہ اس کے جھوٹے ہونے کا واضح اور کھلا نشان ثابت ہوا اور اس پیش گوئی میں چھ دعوے تھے۔ جن میں پورے طور پر جھوٹا ہوا۔ کوئی ایک دعویٰ بھی اس کا سچا ثابت نہیں ہوا اور مرزاقادیانی ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو محمدی بیگم کے فراق میں چل بسا۔ اس کا حریف