مرزاقادیانی ہی کے قلم سے لکھے ہوئے چند ایک اصول ملاحظہ فرمائیں۔
۱… ’’بدخیال لوگوں کو واضح ہو کہ ہمارا صدق وکذب جانچنے کے لئے ہماری پیش گوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۸۸، خزائن ج۵ ص۲۸۸)
۲… ’’علاوہ اس کے جن پیش گوئیوں کو مخالف کے سامنے دعویٰ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے وہ ایک خاص طور کی روشنی اور ہدایت اپنے اندر رکھتی ہیں اور ملہم لوگ حضرت احدیت میں خاص طور پر توجہ کر کے ان کا زیادہ تر انکشاف کرا لیتے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۴۰۴، خزائن ج۳ ص۳۰۹)
۳… ’’ممکن نہیں کہ نبیوں کی پیش گوئیاں ٹل جائیں۔‘‘
(کشتی نوح ص۵، خزائن ج۱۹ ص۵)
’’ممکن نہیں کہ خدا کی پیش گوئی میں کچھ تخلف ہو۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۸۳، خزائن ج۲۳ ص۹۱)
’’ان تین اصولوں کے بعد ہم کہتے ہیں کہ کوئی ایک پیش گوئی مرزاقادیانی کی پیش کرو جس کو اس نے دشمن کے سامنے بطور دعویٰ پیش کیا ہو، اور پھر پوری ہوئی ہو۔ ہمارا دعویٰ ہے کہ وہ ایک میں بھی سچا نہیں ہوا اور بقول اپنے ذلیل اور رسوا ہوا۔ چنانچہ (تریاق القلوب ص۱۰۷، خزائن ج۱۵ ص۳۸۲) پر لکھا ہے: ’’اور باوجود میرے اس اقرار کے یہ بات بھی ظاہر ہے کہ کسی انسان کا اپنی پیش گوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر رسوائی ہے۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ اس کی رسوائی کے لئے یہی کافی ہے کہ وہ ایک پیش گوئی میں جھوٹا ثابت ہو جائے۔ بفرض محال اس کی کچھ پیش گوئیاں سچی بھی نکلیں تو وہ اس کے دعویٰ کی صداقت کی دلیل نہیں ہو سکتیں۔ ایسے تو بہت سے نجومیوں کی پیش گوئیاں بھی سچی نکلتی رہتی ہیں۔ ہاں! کسی ایک پیش گوئی کا جھوٹا نکلنا اس کے کاذب ہونے کی صریح دلیل ہے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کو بھی اقرار ہے۔ لکھتا ہے کہ: ’’اگر ثابت ہو جائے کہ میری سو پیش گوئی میں سے ایک بھی جھوٹی نکلی تو میں اقرار کر لوں گا کہ میں کاذب ہوں۔‘‘ (اربعین نمبر۴ ص۲۵ حاشیہ، خزائن ج۱۷ ص۴۶۱)
مزید پیش گوئیوں کے متعلق لکھتا ہے کہ: ’’مدعی کاذب کی پیش گوئی پوری نہیں ہوتی۔ یہی قرآن کی تعلیم ہے اور یہی تورات کی۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۳۲۶، خزائن ج۵ ص۳۲۶)
اور (استفتاء ص۳، خزائن ج۱۲ ص۱۱۱) پر ہے کہ: ’’تورات اور قرآن نے بڑا ثبوت نبوت کا صرف پیش گوئیوں کو قرار دیا ہے۔‘‘ (یہ مرزاقادیانی کا تورات اور قرآن دونوں پر افتراء ہے) تو بقول اس کے ہم اس کی پیش گوئیوں کو ہی دیکھ لیتے ہیں۔