اس کے خلاف اور ختم نبوت کا اقرار
۱… ’’قرآن شریف میں ختم نبوت بکمال تصریح موجود ہے اور پرانے یا نئے نبی کی تفریق کرنا یہ شرارت ہے۔ حدیث ’’لا نبی بعدی‘‘ میں نفی عام ہے۔ ‘‘
(ایام الصلح ص۱۴۶، خزائن ج۱۴ ص۳۹۳)
۲… ’’بلکہ اس کے لئے کہ میں اس کے رسول پر دلی صدق سے ایمان لایا ہوں اور جانتا ہوں کہ تمام نبوتیں اس پر ختم ہیں اور اس کی شریعت خاتم الشرائع ہے۔‘‘
(چشمہ معرفت ص۳۲۴، خزائن ج۲۳ ص۳۴۰)
۳… ’’وما کان لی ان ادعی النبوۃ واخرج عن الاسلام والحق بقوم کافرین‘‘ مجھے کب جائز ہے کہ میں نبوۃ کا دعویٰ کر کے اسلام سے خارج ہو جاؤں اور کافروں سے جا ملوں۔ (حمامتہ البشریٰ ص۷۹، خزائن ج۷ ص۲۹۷)
۴… ’’ہم بھی مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کے قائل ہیں اور آنحضرتﷺ کی ختم نبوت پرایمان رکھتے ہیں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۹۷)
۵… ’’قرآن کریم بعد خاتم النّبیین کے کسی رسول کا آنا جائز نہیں رکھتا۔ خواہ وہ نیا رسول ہو یا پرانا ہو۔ کیونکہ رسول کو علم دین بتوسط جبرائیل ملتا ہے اور باب نزول جبرائیل بہ پیرایہ وحی رسالت مسدود ہے اور یہ بات خود ممتنع ہے کہ دنیا میں رسول آوے۔ مگر سلسلہ وحی رسالت نہ ہو۔‘‘
(ازالہ اوہام حصہ دوم ص۷۶۱، خزائن ج۳ ص۵۱۱)
۶… ’’اور ظاہر ہے کہ یہ بات مستلزم محال ہے کہ خاتم النّبیین کے بعد پھر جبرائیل علیہ السلام کی وحی رسالت کے ساتھ زمین پر آمدورفت شروع ہو جائے اور ایک نئی کتاب اﷲ گو مضمون میں قرآن شریف سے توارد رکھتی ہو پیدا ہو جائے اور جو امر مستلزم محال ہو وہ محال ہو جاتا ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۵۸۳، خزائن ج۳ ص۴۱۴)
۷… ’’اور رسول کی حقیقت اور ماہیت میں یہ امر داخل ہے کہ دینی علوم بذریعہ جبرائیل حاصل کرے اور ابھی ثابت ہوچکا ہے کہ اب وحی رسالت تابقیامت منقطع ہے۔‘‘
(ازالہ اوہام ص۶۱۵، خزائن ج۳ ص۴۳۲)
۸… ’’اور اﷲ کو شایاں شان نہیں کہ خاتم النّبیین کے بعد نبی بھیجے اور نہ شایان شان ہے کہ سلسلہ نبوت کو دوبارہ از سرنو شروع کر دے۔ بعد اس کے کہ اسے قطع کر چکا ہو۔‘‘
(آئینہ کمالات اسلام ص۳۷۷، خزائن ج۵ ص۳۷۷)