فرمائی ہے۔ مذکورۃ الصدر عبارت سے معلوم ہوگیا کہ امام غزالیؒ کی دربار رسالت میں کس قدر مقبولیت ہے۔ اب ممدوح کا عقیدہ سنئے! فرماتے ہیں۔
’’پس بہ آخر ہمہ رسول ماراﷺ فرستاد ونبوت وے بدرجہ کمال رسانیدہ ہیچ زیادت را بہ آں راہ نبود وبہ ایں سبب اور اخاتم الانبیاء کرد کہ بعد ازوے ہیچ پیغمبر نباشد۔‘‘
(کیمیائے سعادت ص۶۱)
ترجمہ: پھر سب پیغمبروں کے بعد ہمارے رسولﷺ کو خلق کی طرف بھیجا اور آپ کی نبوت کو ایسا کمال کے درجہ تک پہنچایا کہ اب اس پر زیادتی محال ہے۔ اسی واسطے آپ کو خاتم الانبیاء کہا کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ (شرح فقہ اکبر ملا علی قاری ص۶۹) میں ہے۔ ’’اولہم آدم وآخرہم محمدﷺ‘‘ {اوّل الانبیاء آدم ہیں اور آخرالانبیاء محمدﷺ۔}
(شرح عقائد نسفی ص۹۹) میں ہے۔ ’’واول الانبیاء آدم وآخرہم محمدﷺ‘‘ {اوّل الانبیاء آدم ہیں اور آخرالانبیاء محمدﷺ۔}
ایضاً (فتوحات مکیہ شریف ص۵۱ ج۳) میں حضرت محی الدین ابن عربیؒ فرماتے ہیں۔ ’’فما بقی للاولیاء بعد ارتفاع النبوۃ الا التعریفات وانسدت ابواب الاوامر والنواہی فمن اداعاہا بعد محمدﷺ وسلم فہو مدع شریعۃ اوحی الیہ سواء وافق بہا شرعنا اوخالف‘‘ {نبوت مرتفع ہوچکی امرونواہی کا دروازہ بند ہوگیا جو حضورﷺ کے بعد یہ دعویٰ کرے کہ میری وحی میں امر بھی ہے اور نہی بھی تو وہ مدعی شریعت کا ہے۔ خواہ وہ ہماری شریعت کے مخالف ہو یا موافق۔}
حضرت امام شعرانیؒ اس عبارت کے ساتھ اور اضافہ فرماتے ہیں۔ ’’فان کان مکلفا ضربنا عنقہ والّاضربنا عنہ صفحا (الیواقیت ج۲ ص۳۴)‘‘ صاحب شریعت ہونے کا مدعی ہو۔ (جیسے مرزا ہے) اپنی امرونہی بتانے والا (جیسے مرزا نے کہا) اگر عاقل ہو توبہ وجہ ارتداد اس کی گردن اڑادیں گے اور اگر کوئی پاگل مراقی سودائی ایسی باتیں کرے گا تو مجنوں سمجھ کر چھوڑدیں گے۔ اسی طرح حضرت ابن عربی (فتوحات مکہ ج۲ ص۷۶) میں فرماتے ہیں۔ ’’اسم النبی زال بعد محمدﷺ‘‘ {حضورﷺ سید الکونین کے بعد نبی کا لفظ ہی کسی پر اطلاق کرنا جائز نہیں۔}
ان مشتے نمونہ ازخروارے حوالوں سے اصل مسئلہ کی کافی وضاحت ہو جاتی ہے اور نبوت کا بالاجماع کمال کو پہنچ کر ختم ہو جانا کسی مزید بیان کا منت گذار نہیں رہتا۔ لہٰذا میں رسالہ کی