انتساب!
سفیر ختم نبوت، فاتح ربوہ، عالم بیمثل، مناظر اسلام، استاذ محترم حضرت مولانا علامہ منظور احمد صاحب چنیوٹیؒ کے نام منسوب کرتا ہوں۔ جن کی کوششوں اور محنتوں سے ہمیں فتنہ مرزائیت کی حقیقت کا انکشاف ہوا۔
مرزائیت، قادیانیت کے تابوت کو بکھیرنے والے مشہور ومعروف علماء کرام کی طرف سے کتاب ہذا کا
تعارف وتصدیقات
عالم حقانی، محقق جلیل، فاضل لبیب، امیر الموحدین، رئیس المناظرین، رئیس المجاہدین، سفیر ختم نبوت، استاذ محترم حضرت مولانا علامہ منظور احمد صاحب چنیوٹی ؒ۔ ایم۔پی۔اے چنیوٹ۔
M!
الحمدﷲ وحدہ الصلوۃ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہ اما بعد!
نبوت باطلہ، قادیانیت کا شجرہ، خبیثہ جسے اسلام کے ازلی دشمن بدبخت انگریز نے اپنے ناپاک استعماری مقاصد کی خاطر ہندوستان میں کاشت کیا تھا۔ ملت اسلامیہ کے لئے یہ ایک خطرناک ناسور ہے۔ علماء ربانی نے اوّل یوم سے ہی اس کا تعاقب شروع کر دیا تھا۔ مرزاقادیانی کی حیات ہی میں مولانا رشید احمد گنگوہی، مولانا کرم دین جہلمی، مولانا ثناء اﷲ امرتسری اور پیر مہر علی شاہ گولڑوی اور دیگر علماء ربانی نے مرزاقادیانی کا تعاقب شروع کر دیا اور ہر طرح اس کا ناطقہ بند کرنے کی اپنی مساعی جاری رکھیں۔ پھر مرزاغلام احمد قادیانی کی وفات کے بعد سید انور شاہ کشمیریؒ جسے محدث زمانہ، ڈاکٹر علامہ اقبالؒ اور مولانا ظفر علی خانؒ، جیسے بلند پایہ شاعر اور صحافی، امیر شریعت سید عطاء اﷲ شاہ بخاریؒ جیسے خطیب بے مثال، فاتح قادیان استاذ محترم مولانا محمد حیات اور مولانا لال حسین اخترؒ جیسے مناظر، زندگی بھر نظم ونثر تحریر وتقریر ہر طریقہ سے ان کا علمی اور سیاسی محاسبہ کرتے رہے۔ الحمدﷲ! ان علماء ربانی کی مخلصانہ محنتوں، کاوشوں سے قادیانیت اپنے آخری انجام کو پہنچ رہی ہے۔ ۱۹۷۴ء کی تحریک کے نتیجہ میں قادیانیوں کو آئینی طور پر غیرمسلم کافر تسلیم کر لیا گیا۔ پھر دس سال کی جدوجہد کے بعد ۱۹۸۴ء میں امتناع قادیانیت آرڈیننس کے ذریعہ اسلامی اصطلاحات وشعار کے استعمال سے قانوناً روک دیا گیا۔ اسلام کے نام پر ان کی کفر وارتداد کی تبلیغ پر پابندی لگادی گئی۔ وہ اب اپنے کو مسلمان نہ لکھ سکتے ہیں نہ کہہ سکتے ہیں۔ اشارۃً کنایتہ یا نقوش