’’وکونہﷺ خاتم النبیین ممانطقت بہ الکتاب وسددت بہ السنۃ واجمعت علیہ الامۃ فیکفر مدعی خلافہ ویقتل ان اصرّ (روح المعانی ج۷ ص۶۵)‘‘ یعنی آنحضرتﷺ کا خاتم النّبیین ہونا ان مسائل میں سے ہے جس پر تمام آسمانی کتابیں ناطق ہیں اور احادیث نبویہ بہ وضاحت بیان کرتی ہیں اور تمام امت کا اس پر اجماع ہے۔ پس اس کے خلاف کا مدعی کافر ہے۔ اگر توبہ نہ کرے تو قتل کر دیا جائے۔ علامہ ابن حجر مکی فرماتے ہیں۔ ’’ومن اعتقد وحیا بعد محمدﷺ کفر باجماع المسلمین (فتاویٰ ابن حجر مکی)‘‘ یعنی جو شخص آپﷺ کے بعد کسی وحی کا معتقد ہوا وہ کافر ہے۔ ملا علی قاری فرماتے ہیں۔ ’’ودعویٰ النبوۃ بعد نبیناﷺ کفر بالاجماع (شرح فقہ اکبر ص۲۰۲)‘‘ یعنی ہمارے نبیﷺ کے بعد دعویٰ نبوت باالاجماع کفر ہے۔
شفاء قاضی عیاضؒ میں مرقوم ہے۔ ’’اخبرانہﷺ خاتم النبیین ولا نبی بعدہ واخبر عن اﷲ تعالیٰ انہ خاتم النبیین واجمعت علیہ الامۃ علیٰ الحمل ہذا الکلام علیٰ ظاہرہ وان مفہومہ المراد بہ بدون تاویل ولا تخصیص فلاشک فی کفر ہولاء الطوائف کلہا قطعا اجماعا وسمعا‘‘ یعنی آپﷺ نے خبر دی کہ آپﷺ خاتم النّبیین ہیں اور آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہوسکتا اور اﷲتعالیٰ کی طرف سے یہ خبر دی ہے کہ آپﷺ انبیاء کے ختم کرنے والے ہیں اور اس پر امت کا اجماع ہے کہ یہ کلام بالکل اپنے ظاہر پر محمول ہے اور جو اس کا مفہوم ظاہری الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے۔ وہی بغیر کسی تاویل وتخصیص کے مراد ہے۔ پس ان لوگوں کے کفر میں کوئی شبہ نہیں ہے جو اس کا انکار کریں اور یہ قطعی اور اجماعی عقیدہ ہے۔
امام غزالیؒ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں کون نہیں جانتا کہ یہ وہی بزرگ ہیں کہ جن پر حضور سید عالمﷺ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہم السلام کے روبرو فخر ومباہات کرتے اور فرماتے ہیں کہ میری امت میں غزالی جیسی ہستیاں ہیں۔ چنانچہ عبارت ذیل ہے۔ (نفحات الانس ص۳۳۵)
’’شیخ ابو الحسن شاذلیؒ کہ قطب زمان بوداز واقعہ کی دیدہ چنیں خبردادہ است کہ حضرت رسالتﷺ با موسیٰ وعیسیٰ علیہم السلام مفاخرت ومباہات کردہ است بغزالیؒ وحضرت رسالتﷺ بہ تعزیر بعضے منکراں غزالی امر فرمود۔‘‘ یعنی شیخ ابوالحسن شاذلی کہ قطب زمان تھے۔ انہوں نے جو واقعہ دیکھا اس کی یوں خبر دی ہے کہ حضرت رسالتﷺ حضرت موسیٰ اور عیسیٰ علیہما السلام کے ساتھ امام غزالیؒ کے بارے میں فخر ومباہات کرتے تھے اور حضور نے امام غزالیؒ کے منکرین کو تعزیر