حکام نے ہمیشہ مستحکم رائے سے اپنی چٹھیات میں یہ گواہی دی ہے کہ وہ قدیم سے سرکار انگریزی کے خیرخواہ اور خدمت گذار ہے اس خود کاشتہ پودے کی نسبت حزم اور احتیاط سے تحقیق وتوجہ سے کام لے اور اپنے ماتحت حکام کو اشارہ فرمائے کہ وہ بھی اس خاندان کی ثابت شدہ وفاداری اور اخلاص کا لحاظ رکھ کر مجھے اور میری جماعت کو عنایت اور مہربانی کی نظر سے دیکھیں۔‘‘
(تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۹، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۲۱)
۳… ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید وحمایت میں گذرا ہے اور میں نے ممانعت جہاد اور انگریزی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھیں ہیں کہ اگر وہ اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی ہیں۔ میں نے ایسی کتابیں تمام ممالک عرب، مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا ہے۔ میری یہ ہمیشہ خواہش رہی ہے کہ روئے زمین کے مسلمان اس سلطنت کے سچے خیرخواہ ہو جائیں۔‘‘ (تریاق القلوب ص۱۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)
۴… ’’اس گورنمنٹ سے جہاد کرنا درست ہے یا نہیں؟ سو یاد رہے کہ یہ سوال ان کا نہایت حماقت کا ہے۔ کیونکہ جس کے احسانات کا شکریہ فرض اور واجب ہے اس سے جہاد کیسا۔ میں سچ سچ کہتا ہوں کہ محسن کی بدخواہی کرنا ایک حرامی اور بدکار آدمی کا کام ہے۔ سو میرا مذہب جس کو میں باربار ظاہر کرتا ہوں یہی ہے کہ اسلام کے دو حصے ہیں۔
۱… ایک یہ کہ خداتعالیٰ کی اطاعت کریں۔
۲… دوسرے اس سلطنت کی جس نے امن قائم کیا ہو۔ جس نے ظالموں کے ہاتھ سے اپنے سائے میں ہمیں پناہ دی ہو۔ سو وہ سلطنت حکومت برطانیہ ہے۔‘‘
(شہادۃ القرآن ص۳، خزائن ج۶ ص۳۸۰)
۵… ’’دوسرا امر قابل گذارش یہ ہے کہ میں ابتدائی عمر سے اس وقت تک جو قریباً ساٹھ سال کی عمر تک پہنچا ہوں اپنی زبان اور قلم سے اہم کام میں مشغول ہوں کہ تامسلمانوں کے دلوں کو گورنمنٹ انگلشیہ کی سچی محبت اور خیرخواہی اور ہمدردی کی طرف پھیروں اور ان کے بعض کم فہموں کے دلوں سے غلط خیال جہاد وغیرہ دور کروں۔‘‘ (تبلیغ رسالت ج۷ ص۱۰، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۱)
۶… ’’میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مرید بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد کے معتقد کم ہوتے جائیں گے۔ کیونکہ مجھ کو مسیح اور مہدی جان لینا ہی مسئلہ جہاد کا انکار ہے۔‘‘
(اشتہار تبلیغ رسالت ج۷، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۱۹)