انتساب!
میں اس کتابچہ کو اپنے جدامجد شیخ شاہ دین مرحوم گورداسپوری کے نام سے منسوب کرتا ہوں۔ نیز ان سعید فطرت انسانوں کے نام جو اس کتابچہ کے مطالعہ کے بعد مرزائیت کے دجل وفریب سے نکل کر محسن اعظم حضرت محمد مصطفیٰﷺ کا دین قبول کریں۔ امجد نصیر!
پیش لفظ!
مرزائی صاحبان عام طور پر کہا کرتے ہیں کہ ہم بھی کلمہ گو ہیں۔ ہماری نماز، ہمارے روزے، ہماری شکل وصورت الغرض ہمارے تمام اطوار مسلمانوں جیسے ہیں تو پھر ہم کو کافر سمجھنا کہاں کی عقلمندی ہے۔ گذارش ہے کہ بنی نوع انسان ہمیشہ سے دوگروہوں میں تقسیم ہوتے چلے آئے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ: ’’ہو الذی خلقکم فمنکم کافرو منکم مؤمن‘‘ {خدا نے تم کو پیدا کیا تم میں سے کچھ کافر اور کچھ مؤمن۔}
اﷲ کے نبی کی اطاعت کرنے والے مسلمان اور منکر کافر، حضرت نوح علیہ السلام کو ماننے والے مسلمان اور نہ ماننے والے کافر، حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانے والے مسلمان اور نہ لانے والے کافر، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی اطاعت کرنے والے مسلمان اور منکرین کافر، بالآخر حضور پرنور محمد مصطفیٰ احمد مجتبیٰﷺ پر ایمان لانے والے مسلمان اور منکر کافر ٹھہرے اور یہی قاعدہ کلیہ ہے۔
حضورﷺ کی بعثت سے پہلے انبیاء کرام علیہم السلام خاص علاقوں اور قوموں کی اصلاح کے لئے آتے رہے۔ مگر محمد مصطفیٰﷺ تمام علاقوں، تمام قوموں، تمام جہانوں اور قیامت تک کے لئے رحمتہ للعالمین بنائے گئے۔ اب مرزاغلام احمد قادیانی کے دعویٰ نبوت کی وجہ سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس پر ایمان لانے والے کافر؟ یا اس کا انکار کرنے والے کافر؟ مگر وہ مرزا ضرور کافر ہے۔ القصہ حضور محمدﷺ کے بعد مدعی نبوت جب کافر ٹھہرا تو اس کے ماننے والے بھی کافر ہی ٹھہرے۔
مسلمان کی تعریف
۱… ’’والذین یؤمنون بما انزل الیک وما انزل من قبلک وبالآخرۃ ہم یوقنون (بقرہ:۴)‘‘ {اور جو لوگ کہ ایمان لاتے ہیں ساتھ اس چیز کے کہ اتاری گئی ہے طرف تیری اور جو کچھ اتاری گئی ہے پہلے تجھ سے اور ساتھ آخرت کے وہ یقین رکھتے ہیں۔}