ہوں۔ یہاں کچھ اپنا کام ہے۔ فرمانے لگے کام ہے۔ ہم سے چھپاتے ہو تمہارا قادیانی سے مقدمہ ہے۔ چیف کورٹ میں تمہاری درخواستیں ہیں۔ تم چاہتے ہو کہ مقدمہ جہلم میں ہو وہ چاہتے ہیں۔ گورداسپور میں ہو تمہاری درخواست نامنظور ہوگی اور مقدمات گورداسپور میں ہوں گے۔ خدا کو منظور ہے کہ مفتری علی اﷲ کو اس کے گھر میں ذلیل کیا جائے۔
یاد رکھو آخر کار تم فتح یاب ہوگے۔ اس کو ذلت بعدذلت ہوگی۔ اس وقت تمام اہل اﷲ تمہارے لئے دست بدعا ہیں۔ یہ تمہارا اور مرزاقادیانی کا مقابلہ نہیں بلکہ یہ اسلام وکفر کا مقابلہ ہے۔ دیکھو! مرزاقادیانی نہ نبی ہے نہ مہدی، نہ مجدد، نہ ولی، نبی کی تو یہ شان تھی کہ وہ ایک چٹائی پر سوتا تھا اور اس کی بیوی دوسری چٹائی پر۔ مرزاقادیانی کی بیوی سیکنڈ اور فسٹ کلاس ریلوے میں سفر کرتی ہے۔ سونے کے خلخال پہنتی ہے۔ یہ دنیا طلبوں کا کام ہے۔ نبی اﷲ کو یہ طاقت بخشتی جاتی ہے کہ زمین وآسمان اس کا کہنا مانتے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام نے دریا کو کہا پھٹ جا پھٹ گیا۔ پھر جب اس میں فرعون داخل ہوا تو کہا مل جا ایسا ہی ہوا۔ دشمن تباہ اور نبی اﷲ معہ اپنے رفقاء کے صحیح وسلامت پار ہوگیا۔ مرزاقادیانی کو طاقت ہو تو تمہارے دل پر قابو حاصل کرے۔ اس وقت وہ سخت تکلیف میں ہے۔
یہ بھی خیال مت کرو کہ وہ مہدی ہے مہدی علیہ السلام جب آئیں گے تو پہلے ان کی آمد کی اطلاع اہل اﷲ کو دی جائے گی۔ وہ سب ان کے ساتھ ہو لیں گے۔ حفاظ وعلماء ان کے حلقہ میں ہوں گے۔ تم دیکھتے ہو سوائے نور الدین کے اس کے ساتھ کون ہے۔ مرزاقادیانی بھی دنیا کا کیڑا اور نورالدین بھی۔ تمام اہل باطن اور علماء اسلام مرزاقادیانی کے دعاوی کے مخالف ہیں۔ خبردار! گھبرانا مت، تائید الٰہی تمہارے شامل حال رہے گی۔ تم کو کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ مخالف طرح طرح کی مصائب میں مبتلا ہوگا۔ ایسا ہی ہوا۔ اس اثناء میں مجھے کبھی سردرد تک کا عارضہ لاحق نہ ہوا۔ مرزاقادیانی غش کھا کر کچہری میں گرے۔ فضل دین چار پائی پر اٹھا کر کچہری میں لایا گیا۔ ’’فاعتبروا یا اولی الابصار‘‘
مذکورہ بالا واقعات تو جناب مرزائے قادیان کے دور حیات کے ہیں۔ ناانصافی ہوگی۔