سے کس طرح بچ سکتا ہے۔ لیکن آپ کو خدا نے حاضری عدالت کی تکلیف سے بالکل محفوظ رکھا۔ حالانکہ مرزائیوں نے اس کے متعلق ناخنوں تک زور لگالیا۔ کیا یہ پیر چشتی کی ایک روشن کرامت نہیں ہے۔ ایسا ہی دیگر مراتب میں بھی مرزائی جماعت کو ناکامی حاصل ہوتی رہی۔ ہم حضرت اقدس پیر صاحب مدظلہ کی اس باطنی توجہ کے کمال مشکور ہیں اور دعا ہے کہ ایزد تعالیٰ آپ کے ظل فیض کو دیر تک محدود رکھے۔
ایک دوسرے حضرت اہل کمال جناب مولانا مولوی فتح محمد صاحب ساکن جنڈی شریف ضلع گورداسپور تھے۔ (جن کا افسوس کہ اب انتقال ہوگیا ہے) آپ فی الواقعہ ایک خدارسیدہ اہل باطن کامل بزرگ تھے۔ آپ کی صحبت سے ایسی لذت اور حظ حاصل ہوتا تھا کہ تمام لذات دنیوی اس کے مقابلہ میں ہیچ ہیں۔ آپ علاوہ ظاہری علوم میں متبحر ہونے کے باطنی علوم (تصوف وسلوک) کے ایک دریا تھے۔ ایسے ایسے نکات اور معارف بیان فرماتے تھے کہ سن کر دل کو وجد ہوتا تھا۔ گورداسپور کے نواح کے لوگ تو آپ کی ذات والا پر فدا تھے اور بھی دوردراز اضلاع سے لوگ کثرت سے آکر آپ کے فیض سے مستفید ہوتے تھے۔ آپ کو ہمارے حال پر خاص توجہ تھی اور ہمیشہ دعا فرماتے تھے۔ آپ کی طرف سے ہمیں مالی امداد بھی معقول ملتی رہی۔ خدا حضرت مغفور کو غریق لجۂ رحمت فرمائے اور ان کے پس ماندگان کو برکت کثیر بخشے۔ اس وقت آپ کے جانشین خلیفہ مولوی محمد شاہ صاحب ہیں جو بہت بابرکت بزرگ ہیں۔
ایک مجذوب فقیر
جن دنوں چیف کورٹ (لاہور) میں درخواست ہائے انتقال مقدمات جانبین سے گزری ہوئی تھیں۔ مرزائیوں کی درخواست تھی کہ مقدمات گورداسپور میں ہوں اور ہماری درخواست تھی کہ جہلم میں ہوں۔ اتفاقاً انارکلی میں مجھے ایک مجذوب فقیر مل گئے۔ جن کے بدن کے کپڑے میلے کچیلے پھٹے پرانے اور سر کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ مجھ سے السلام علیک کہہ کر پوچھنے لگے کہ جوان تم کون ہو۔ کہاںکے رہنے والے یہاں کیا کام ہے۔ چونکہ میں متفکر تھا۔ دوسرے روز چیف کورٹ میں پیشی تھی۔ کچھ سا جواب دے کر ٹالنا چاہا کہ فقیر میں جہلم کا رہنے والا