مدخلہ ملزم میری طرف سے ہے۔ اس نے میرے اوپر جہلم میں مقدمہ کیا تھا۔ اس میں مستغیث حال بھی ملزم تھا۔ میں نے سنا۱؎ تھا کہ غلام حیدر تحصیلدار واسطے انتظام کے بحکم صاحب ڈپٹی کمشنر آیا تھا۔ میری دانست میں دس۲؎ ہزار آدمی جمع ہوئے تھے۔ کئی سو آدمی مرد وعورت جہلم میں میرے مرید ہوگئے تھے۔ غلام حیدر مرید نہیں ہوا۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ غلام حیدر نے عدالت کو میرے مرید دکھائے تھے یا نہیں۔ (اخبار عام ۲؍فروری ۱۹۰۲ء دکھایا گیا)
اس کے ص۴،۵ پر مضمون مقدمہ جہلم کی غلط فہمی میرا ہے۔ اس میں یہ فقرہ لکھا ہے کہ پھر تحصیلدار غلام حیدر نے حاکم عدالت کو وہ ہزارہا آدمی دکھلائے جو میرے دیکھنے کے لئے موجود تھے۔لوگ کہتے تھے کہ قریباً ۳۳۰؎ہزار کے آدمی ہوں گے۔ اس وقت میرے مرید دولاکھ سے۴؎ زائد ہوں گے۔ (تحفہ غزنویہ مطبوعہ اکتوبر ۱۹۰۲ء دکھایا گیا)
۱؎ یہ سنا تھا کہنا اس غرض سے ہے کہ غلام حیدر سے بے لگاؤ ہونا ثابت ہو۔ حالانکہ چٹھی مطبوعہ اخبار عام میں صاف طور پر لکھا چکے ہیں کہ پھر تحصیلدار غلام حیدر نے حاکم عدالت کو وہ ہزارہا آدمی دکھائے جو میرے دیکھنے کے لئے موجود تھے۔ ناظرین! انصاف کریں کہ کیایہی آیت ’’ولا تکتموالشہادۃ‘‘ کی تعمیل ہے۔
۲؎ حالانکہ چٹھی میں آپ تیس پینتیس ہزار آدمی شائع کر چکے ہیں۔ شرم، شرم!
۳؎ اب جب چٹھی دکھائی گئی اور آپ کی آنکھ کھلی تو آپ گویا تطبیق اس طرح دینا چاہتے ہیں لوگ کہتے تھے کہ قریباً ۳۰ہزار آدمی ہوں گے۔ حالانکہ وہاں بڑے وثوق سے کہا گیا کہ جن لوگوں نے بہت غور کر کے اندازہ لگایا۔ وہ کہتے تھے کہ تیس پینتیس ہزار ہوں گے۔ جب آپ اپنے بیان میں دس ہزار کی تعداد بتلاتے ہیں تو پھر لوگوں کے غلط اندازہ تیس پینتیس ہزار کو اخبار عام میں آپ نے کیوں شائع کرایا اور صحیح اندازہ سے اس کو کیوں تعبیر کیا۔ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ ’’کفٰے بالمرء کذبا ان یحدث بکل ماسمع‘‘
۴؎ تعداد مریدان کی نسبت مرزاقادیانی اور ان کے مریدوں کے بیانات میں عجیب گڑبڑ ہے اور اس قدر مبالغہ اور جھوٹ سے کام لیاگیا ہے۔ جس کی کوئی نظیر بمشکل مل سکے۔ ۱۹۰۰ء میں جب منشی تاج الدین صاحب تحصیلدار انکم ٹیکس کے مقدمہ کی تحقیقات کے لئے قادیان میں گئے۔ ان کے سامنے تعداد مریدان ۳۱۸ بتائی۔ چنانچہ انہوں نے اپنی رپورٹ میں تعداد مریدان مرزاقادیانی ۳۰ہزار لکھی۔ جیسا کہ اپنے اس بیان میں تصدیق کرتے ہیں۔(بقیہ حاشیہ اگلے صفحہ پر)