کی اور اس لیاقت وقابلیت سے تقریر کی کہ موافق ومخالف عش عش کر اٹھے۔ چونکہ مرزاقادیانی بھی اصالتاً حاضر تھے اور بحث سن رہے تھے۔ مولوی صاحب کی زبردست تقریر کا ان کے دل پر سخت رعب پڑا اور ایسی دہشت پڑی کہ ڈیرہ پر پہنچتے ہی تپ شدید میں مبتلا ہو گئے اور دوسرے روز مرزاقادیانی عدالت میں حاضر نہ آئے اور ان کے وکیل نے بیماری کا سرٹیفکیٹ پیش کیا اور ساتھ ہی فضل الدین ملزم کی طرف سے وکیل نے درخواست دی کہ زیردفعہ ۵۲۶ ضابطہ فوجداری مقدمہ کو ملتوی کیا جائے۔ کیونکہ ملزم عدالت ہذا سے مقدمہ انتقال کرانے کی درخواست عدالت عالیہ میں کرنا چاہتا ہے۔ وکلاء استغاثہ نے اعتراض کیا کہ اس مرحلہ پر اب التواء نہیں ہوسکتا۔ مگر مجسٹریٹ نے ان کی درخواست کو سن کر حسب ذیل حکم کے ذریعہ ۱۴؍فروری ۱۹۰۴ء تک مقدمہ ملتوی کیا۔
نقل حکم ظہری درخواست ملزمان نسبت التوائے مقدمہ
آج یہ درخواست وکیل ملزم فضل الدین نے پیش کی شہادت استغاثہ ختم ہوچکی اور بحث وکیل مستغیث اس امر کی بھی ختم ہوچکی ہے کہ آیا ملزمان پر فرد جرم مرتب ہووے یا نہ اور ملزمان کی طرف سے آج بحث ہونی تھی کہ فرد جرم مرتب کی جاوے یا نہ کی جاوے کہ وکیل ملزم نے یہ درخواست دی کہ ہم مقدمہ انتقال کرانا چاہتے ہیں۔ مہلت مل جاوے فریق ثانی اس درخواست پر اعتراض کرتا ہے کہ مہلت مل جاوے۔ فریق ثانی اس درخواست پر اعتراض کرتا ہے کہ مہلت نہیں ہوسکتی۔ مگر دفعہ ۵۲۶ میں حکم ہے کہ ایسی درخواست کی صورت میں التواء لازمی طور پر کر دینا چاہئے۔ اس لئے حکم ہوا کہ ایک ماہ کی مہلت ملزمان کو دی جائے کہ درخواست انتقال کر کے حکم التواء کا لاویں۔ مقدمہ ۴؍فروری ۱۹۰۴ء کو پیش ہووے۔ مورخہ ۴؍جنوری ۱۹۰۴ء (دستخط حاکم)
اس کے بعد ۴؍فروری ۱۹۰۴ء کو عدالت صاحب ڈپٹی کمشنر بہادر ضلع گورداسپور میں درخواست انتقال مقدمہ کی گئی جو کہ بذریعہ مسٹر اوریٹل صاحب ایڈووکیٹ گزری جس کی نقل درج ذیل ہے۔
نقل درخواست انتقال مقدمہ
جناب عالی! وجوہات درخواست حسب ذیل ہیں۔
۱… جب کہ مجسٹریٹ نے بروئے فیصلہ خود بمقدمہ دغا برخلاف مستغیث یہ قرار دے دیا تھا کہ مستغیث ہی ان خطوط کا لکھنے والا ہے۔ جن میں مبینہ دستخطی نوٹ محمد حسن فیضی متوفی کا ذکر ہے اور نیز وہ ان چٹھیوں کا بھی لکھنے والا تھا جو اس کے مضمون سراج الاخبار میں شائع ہوئیں۔ مجسٹریٹ کو مقدمہ ہذا شروع ہی میں خارج کر دینا چاہئے تھا۔