وحجت کے اس کو تسلیم کر لینا چاہئے۔ مگر خیر ہم تمہاری نازبرداری کرتے ہوئے یہ مطالبہ بھی پورا کرتے ہیں۔ ’’لعلکم تعقلون‘‘ لیجئے! مرزاقادیانی ہی رقمطراز ہیں۔ ’’اسی طرح پر میری پیدائش ہوئی۔ یعنی جیسا کہ میں ابھی لکھ چکا ہوں میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی جس کا نام جنت تھا اور پہلے وہ لڑکی پیٹ سے نکلی تھی اور بعد میں اس کے میں نکلا تھا اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور کوئی لڑکا یا لڑکی نہیں ہوئی اور میں ان کے لئے خاتم الاولاد تھا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۱۵۷، خزائن ج۱۵ ص۴۷۹)
’’بنی اسرائیل کے خاتم الانبیاء کا نام جو عیسیٰ ہے۔‘‘
(خاتمہ نصرۃ الحق ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم ص ب، خزائن ج۲۱ ص۴۱۲)
مرزائیو! ذرا ہوش سے کام لو ؎
تہ خنجر بھی منہ موڑا نہ قاتل کی اطاعت سے
تڑپنے کو کہا تڑپے ٹھہرنے کو کہا ٹھہرے
(امیر مینائی)
سوال… جب خاتم الشعرا یا خاتم الاسخیا وغیرہ کے معنی افضل واعلیٰ کے ہیں تو پھر خاتم الانبیاء کے یہ معنی کیوں نہیں ہوسکتے؟
جواب… یہ استعمال مجازی ہے۔ پہلے حقیقی معنی ہوتے ہیں اگر وہ نہ ہو سکیں تو پھر مجازی، چونکہ یہاں حقیقت مہجورومتروک نہیں اس لئے وہی مراد ہوگی۔ مجازی کے لئے قرائن خارجیہ کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ یہاں نہیں۔ یہ اسی طرح ہے جیسے ہم کہتے ہیں کہ فلاں بے نظیر شاعر اور فلاں بے نظیر ادیب ہے تو اس کے معنی عام طور پر یہی ہوتے ہیں کہ وہ دوسروں سے اچھا ہے اور اگر کوئی مخالف عیسائی کہے کہ پھر جب بے نظیر کے معنی افضل واعلیٰ کے ہیں تو جب خدا کو تم بے نظیر کہتے ہو تو اس کے یہ معنی کیوں نہیں ہوسکتے کہ وہ سب سے اعلیٰ کے ہیں نہ کہ وہ احد محض ہے تو ہم کہیں گے کہ یہ استعمال مجازی ہے اور اﷲ کے متعلق حقیقی۔ اس لئے کہ اس کا واقعی کوئی شریک نہیں۔ اسی طرح خاتم الشعرا وغیرہ میں مجازی استعمال ہے اور خاتم النّبیین میں حقیقی یعنی آپﷺ آخری نبی ہیں۔
جواب ثانی
خاتم النّبیین کو خاتم الشعراء اور خاتم الاسخیا وغیرہ پر قیاس کرنا قیاس مع الفارق ہے۔ اس لئے کہ خاتم النّبیین جمع مذکر سالم ہے اور یہ قاعدہ جمہور نحویوں کے نزدیک مسلم ہے کہ اگر جمع مذکر سالم پر الف لام داخل ہو تو اس وقت استغراق حقیقی مراد ہوتا ہے۔ بہ خلاف خاتم الشعراء وغیرہ