اور پانی سے کیونکر انکار کیا جاسکتا ہے۔
مریخ میں چھوٹے چھوٹے خطوط نظر آتے ہیں۔ جو نہریں خیال کی جاتی ہیں ایام بارش میں وہ چوڑی نظر آتی ہیں۔ پھر باریک ہو جاتی ہیں غرض فلکیات میں آب وہوا ہر جگہ موجود ہے جس سے انکار کرنا سخت نادانی ہے۔
۲… فلکیات پر ہوا سے اوپر درمیان میں خلاء ہے۔ پھر بغیر سانس لینے کے کیونکر گزر ہوسکتا ہے؟
جواب… شب معراج رفع جسم رسول اﷲ کی نوعیت سے آپ واقف نہیں۔ آپؐ کی سرعت رفتار کی یہ حالت تھی کہ جب واپسی ہوئی زنجیر درہل رہی تھی اور بستر ویسا ہی گرم تھا۔ باوجود اس قدر بعد مسافت اور پیشی رب جلیل حاصل ہونے کے گویا برق صفت ہفت افلاک کو چیر کر پھر واپس آگئے۔ نہ سانس لینے کی ضرورت نہ زمہریر کا کچھ اثر ہوا۔
دم زدن میں طے کیا نیلی رواق
برق سے بھی تیز تھا بیشک براق
کچھ نہ ہوئی بے ہوائی آپؐ کو
سانس کی نوبت نہ آئی آپؐ کو
ایسا ہی رفع عیسیٰ علیہ السلام بھی ہوا۔ بجلی کی طرح ان کا گزر ہوا۔ کتب اسلامیہ میں لکھا ہے کہ واپسی بھی ایسی ہی ہوگی۔ جیسے بجلی کی چمک شرق سے غرب کو ہوتی ہے۔
۳… جسم خاکی کا گزرکرہ آتش سے ناممکن ہے۔ کیونکہ آگ جلاتی اور خاکی جسم جل جاتا ہے۔
جواب… یہ درست ہے کہ آگ کا خاصہ اور اثر جلانے کا ہے اور دوسری چیزوں کا خاصہ آگ میں جاکر جلنا ہے۔ مگر یہ تب ہے کہ کسی چیز کے خواص اس سے جدا نہ ہوسکتے ہوں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہوسکتے ہیں۔ آگ کے دو خاصے ہیں۔ جلانا اور روشن کرنا۔ دوسری اشیاء میں جلنا اور روشن ہوجانا رکھا گیا ہے۔ ممکن ہے کہ آگ ایک خاصہ کے ساتھ پائی جائے۔ یعنی صرف روشنی باقی رہے۔ دوسرا خاصہ جلانا مفقود ہو جائے۔ جیسے ولایتی جاپانی پھول جھڑی یا دوسری آتش بازیاں کہ ان میں آگ روشن ہے۔ مگر اصلاً کسی چیز کو جلا نہیں سکتی۔ ایسا ہی بعض اشیاء سے جلنے کا اثر جاتا رہتا ہے۔ مثلاً سمندر (کیڑا) آگ میں ہی پیدا ہوتا اور آگ میں ہی رہتا ہے۔ سعدیؓ فرماتے ہیں ؎
بدریا نہ خواہد شدن بط غریق
شمندرچہ واند عذاب الحریق
انسانوں میں ایسے کئی شعبدہ باز ہیںجو دہکتے انگاروں پر چلتے ہیں۔ آگ اپنے جسم پر ڈالتے اور آگ سے کھیلتے ہیں۔ چنانچہ ابھی ماہ نومبر ۱۹۳۱ء میں لاہور اسلامیہ کالج میں ایک سید