ان احادیث میں تصریح ہے کہ یہود نے بغض وعناد کی وجہ سے مسیح علیہ السلام کے لئے صلیب تیار کی اور ارادہ قتل کیا۔ لیکن خدا نے ان کو آسمان کی طرف اٹھا لیا اور یہود کے پلید ہاتھ ان کو چھونے نہ پائے اور کہ وہ ابھی زندہ ہیں۔ قیامت سے پہلے ان کا نزول اجلال ہوگا اور جب ان کی وفات ہوگی تو روضۂ رسول میں دفن ہوں گے۔
مرزاقادیانی خود بدولت براہین احمدیہ میں لکھ چکے ہیں کہ عیسیٰ علیہ السلام دوبارہ آئیں گے اور آیت ’’والذی ارسلہ بالہدیٰ ودین الحق لیظہرہ علے الدین کلہ‘‘ کی تکمیل ہوگی۔
نیزہ مرزاقادیانی ’’انی متوفیک‘‘ کا معنی وہی لکھ چکے ہیں جو جمہور اہل اسلام نے کیا ہے۔ میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور بلند کرنے والا ہوں اپنی طرف۔
(براہین احمدیہ ص۵۲۰، خزائن ج۱ ص۶۲۰)
ایسا ہی آپ کی الہامی کتاب (توضیح المرام ص۳، خزائن ج۳ ص۵۲) میں درج ہے۔ (خلاصہ) اب ہم صفائی بیان کے لئے لکھنا چاہتے ہیں کہ دو نبی ایلیا اور مسیح ابن مریم آسمان کی طرف اٹھائے گئے اور یہ احادیث کے مطابق ہے۔
ایسا ہی (ازالہ اوہام ص۲۹۴،۲۹۵، خزائن ج۳ ص۲۵۱) میں ہے۔ میں مانتا ہوں اور باربار مانتا ہوں کہ ایک کیا دس ہزار سے بھی زیادہ مسیح آسکتے ہیں اور ممکن ہے کہ ظاہری جلال واقبال کے ساتھ آوے اور ممکن ہے کہ اوّل دمشق میں ہی نازل ہو۔ اسی کتاب (ص۲۹۸) میں ہے۔ ممکن ہے اور بالکل ممکن ہے کہ کسی زمانہ میں کوئی ایسا مسیح بھی آجائے کہ جس پر حدیثوں کے ظاہری الفاظ صادق آسکیں۔
اب جب کہ مرزاقادیانی خود توفی کا معنی پوری نعمت دینا یا پورا لینا اور بلند کرنا کر چکے ہیں اور یہ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ احادیث کے ظاہری الفاظ سے مسیح علیہ السلام کا نزول من السماء ثابت ہے اور یہ ناممکن بھی نہیں تو پھر یہ ضد کہ مسیح علیہ السلام کا اتنی مدت دراز زندہ رہنا، آسمان پر جانا پھر نازل ہونا بالکل ناممکن اور محال ہے۔ کہاں تک حق بجانب ہے؟
صرف کشف اور الہامات کی بناء پر احادیث نبویہ کی تکذیب اور جمہور اہل اسلام کے عقیدہ راسخہ بلکہ خود اپنے عقیدہ کی مخالفت ٹھیک نہیں ہے۔ کیونکہ آپ خود فرماتے ہیں:
۱… ’’اس پر علماء اہل اسلام، صوفیاء عظام اور اولیاء کرام کا اتفاق ہے کہ جو الہام اور کشف رسول اﷲﷺ کے طریق کے خلاف ہو۔ شیطانی القاء ہے۔‘‘ (آئینہ کمالات اسلام ص۲۱)