ہاں! اس کو مبرا کہو تو کہو اور مرزائی یہ کہیں کہ نہیں فرد جرم تو کیا سزایابی کے بعد بھی مرزاقادیانی بری سمجھے جائیں گے۔ مرشد جی کے قول کے مقابل مریدوں کے قول کی کچھ وقعت نہیں ہوسکتی ؎
جو خود تریاق میں ہیں لکھ چکے مرزا صراحت سے
کہ بعد از فرد کچھ عزت نہیں ہرگز بریت سے
تو کیا حاصل اپیلوں سے جو جرمانہ ہوا واپس
کہ مرزاجی سزا بھی پاچکے پہلے عدالت سے
یہ کیوں تکذیب مرشد کی ہیں کرتے احمدی ہوکر
عقیدت سے نہ یہ کہنا ہے بلکہ ہے عداوت سے
تعجب ہے کہ مرزاجی ہیں جھوٹے اور تم سچے
یہ گستاخی بڑی ہے باز آؤ ایسی جرأت سے
ملی جو ذلتیں مرزا کو کیا کم تھی سزا اس کو
سزا تو ہوچکی تھی جو مقدر ہوئی قدرت سے
نہ مرزاجی کو بھولے گا زمانہ وہ کبھی ہرگز
بچائی جان بیچارہ نے مرمر کر مصیبت سے
الحاصل مرزاقادیانی کا اپیل میں کامیاب ہونا ان کی کسی کرامت یا فتح کی دلیل نہیں اور نہ ہی اپیل میں کامیاب ہونے کی بابت مرزاقادیانی نے کوئی الہام کیا ہوا تھا۔ اگر اپیل کے متعلق صراحت سے بعد از فیصلہ مقدمہ مرزاقادیانی کا کوئی الہام کسی اخبار میں شائع ہوا ہے تو براہ مہربانی پیش کریں اور یہ بھی فرمائیں کہ اگر مقدمہ سے بریت کرامت نشانی ہے تو مولوی صاحب دو مقدمات میں بری ہوچکے تھے۔ ان کی کرامت کیوں نہیں مانی جاتی۔
۹… بہت بڑی بات جو ان مقدمات میں ظاہر ہوئی تھی وہ یہ تھی کہ مرزاقادیانی اور ان کی وہ جماعت جن کو خدا کی برگزیدہ جماعت کا خطاب دیا جاتا ہے اور جن کے منہ پر صداقت صداقت کا کلمہ ہروقت جاری رہتا ہے۔ کہاں تک اپنے دعویٰ صداقت میں سچے ہیں۔ مرزاقادیانی اپنی متعدد تصانیف کے ذریعہ دنیا کے سامنے یہ دعویٰ زور سے کر چکے ہیں کہ عمر بھر میں کسی معاملہ دنیوی میں انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا اور اس لئے مان لینا چاہئے کہ وہ اپنے روحانی دعاوی میں بھی سچے ہیں۔ لیکن ان مقدمات نے بہت بڑا راز جو کھولا وہ مرزاقادیانی کی صداقت کی قلعی کھولنا ہے۔ مرزاقادیانی نے اپنے حلفی بیانات میں جو عدالت میں انہوں نے لکھائے ہیں۔ بہت سے جھوٹ بولے ہیں جن کی ہم مکمل فہرست اس روئیداد کے آخیر پر ہدیہ ناظرین کریں گے اور ساتھ ہی ان کے بعض ارکان نے جو کچھ اپنے بیانات میں غلط بیانیاں کی ہیں ان کی بھی فہرست دیں گے۔ تاکہ پبلک اس امر سے پورا فائدہ اٹھائے کہ جو شخص عدالت میں حلفی بیانات میں جھوٹ بولے۔ وہ کبھی بھی خدا کا راست باز بندہ یا ولی، امام، نبی وغیرہ نہیں ہو سکتا ہے۔ ہم ان بیانات کا