کرتے ہیں۔ اب مرزاقادیانی کے حلفی بیان اور مولانا نورالدین کے حلفی بیان کے بعد یہ ساری بنیاد جو نشانات کی تعمیر کے لئے قائم کی گئی تھی بالکل متزلزل ہوجاتی ہے۔
فیضی کی وفات کی پیش گوئی
اسی طرح مرزاقادیانی نے حسب عادت وفات فیضی کو بھی دو نمبروں میں بیان کر کے نشانات کی تعداد بڑھائی ہے۔ چنانچہ (حقیقت الوحی ص۲۲۸، خزائن ج۲۲ ص۲۳۹) میں ہے۔
نشان نمبر۷۴… ایسا ہی مولوی محمد حسن بھیں والا میری پیش گوئی کے مطابق مرا جیسا کہ میں نے مفصل اپنی کتاب مواہب الرحمن میں لکھا ہے۔
نشان نمبر۱۵۳… مولوی محمد حسن بھین والے نے میری کتاب اعجاز احمدی کے حاشیہ پر لعنت اﷲ علی الکاذبین لکھ کر اپنے تئیں مباہلہ میں ڈالا۔ چنانچہ اس تحریر پر ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ مر گیا۔‘‘ (ایضاً ص۳۵۶) (تعجب ہے کہ صرف لعنۃ اﷲ علی الکاذبین) لکھنے والاجس میں مرزاقادیانی کا نام تک نہیں ہے مباہلہ کی زد میں آگیا۔ لیکن مولوی ثناء اﷲ جن سے شدومد سے مباہلہ کیاگیا اور ڈاکٹر عبدالحکیم جو اس سے سخت سنگین کلمات مرزاقادیانی کی نسبت استعمال کرتے رہے۔ ان کا بال بھی بیکا نہ ہوا۔ بلکہ مرزاقادیانی ان سے پہلے خود چل بسے۔
عدالت میں اس پیش گوئی سے انکار
لیکن تعجب تو یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے عدالت میں مولوی محمد حسن کی نسبت پیش گوئی کرنے سے بھی صاف انکار کیا۔ اب کس منہ سے ان کو اپنی پیش گوئی کا مصداق قرار دے رہے ہیں۔ مگر شرم چہ کنّی است کہ پیش مرداں بیاید!
بمقدمہ حکیم فضل دین بنام مولوی کرم الدین مرزاقادیانی کا جو حلفی بیان بحیثیت گواہ صفائی عدالت لالہ چندولال صاحب مجسٹریٹ میں ہوا اس میں یوں ارشاد ہے۔
’’الہام ’’انی مہین من ارادھانتک‘‘ کئی سال پہلے مجھ کو ہوا تھا۔ یعنی مقدمات سے کئی سال پہلے یہ پیش گوئی ’’من قام للجواب وتنمر فسوف یری انہ تندم وتدمر‘‘ فیضی کی نسبت نہیں ہے۔ پھر آگے چل کر فرماتے ہیں۔ سوال یہ دونوں الہام آپ کے سچے ہوئے کہ نہیں؟ بہ متعلق مولوی محمد حسن اور پیر مہر علی شاہ!‘‘ جواب پہلے میں نے قبل سراج الاخبار شائع ہونے کے خیال کیا تھا کہ یہ دونوں الہام سچے ہوگئے ہیں۔ مگر سراج الاخبار کے شائع ہونے کے بعدمیں نے یقین کر لیا کہ یہ میری رائے غلط نکلی۔ کیونکہ پیش گوئیوں کا مصداق قائم کرنا اکثر رائے سے ہوا کرتا ہے۔ یہ بات صرف رائے کے متعلق ہے۔ نفس پیش گوئیوں کواس سے کچھ تعلق نہیں۔‘‘