جاتیں۔ لیکن آپ کی زبان مبارک سے برا تو کیا کلمہ بددعا بھی نہ نکلتا۔ بلکہ فرمایا کرتے ’’اللہم اہد قومی انہم لا یعلمون‘‘ (اے خدا میری قوم کو ہدایت کر دے یہ تیرے نبی کی شان جانتے نہیں) سبحان اﷲ! یہی خلق عظیم تھا جس نے بیگانوں کو اپنا اور دشمن کو دوست بنادیا اور بڑے بڑے گردن کش گبر بھی اس سے متأثر ہوکر کلمہ طیبہ پڑھ کر اسلام کے آغوش میں آجانے پر مجبور ہو گئے۔ لیکن مرزاقادیانی عجیب رسول ہیں کہ بجائے رحمت کے سارے جہاں کے لئے زحمت ثابت ہوئے۔ کسی متنفس کے لئے آپ کے منہ سے کبھی کلمہ خیر نہ نکلا۔ بلکہ ہر ایک کو سب وشتم کا نشانہ بنایا اور یہی کہتے رہے کہ میری وجہ سے ملک میں وبا، طاعون نازل ہوئی۔ میرا ہی وجود مسعود باعث زلازل وحوادث ہوا۔ میری ہی ذات موجب بربادی ملک وتباہی وخلق ہوئی۔ واہ چہ خوش:
قوت نیکی نداری بد مکن
آپ کے کلمات طیبات میں سے مشتے نمونہ ازخروارے چند کلمات درج ذیل ہیں۔
۱… علماء وصوفیاء کی نسبت ارشاد ہے: ’’این وقت زیر سقف نیلگون ہیچ متنفس قدرت ندارد کہ لاف برابری بامن زند (آج تک دنیا میں کوئی متنفس لاف زنی میں آپ کا ہمتا نہیں ہے) من آشکار میگویم ہرگز باک ندارم! (آپ کو کیا خوف ہے گورنمنٹ برطانیہ کا ظل عاطفت آپ کے سر پر ہے) ہے اہل اسلام درمیان شما جماعتی باشند کہ گردن بدعویٰ محدثیت ومنسریت برمیفراز ندو گروہی اند کہ ازنازش ادب پابر زمین نگذارند، دگروہی اند کہ دم از خدا شناسی زنند خودرا چشتی وقادری وسہروردی ونقشبندی وچہا چہا گویند این جملہ طوائف رانزد من بیارید!‘‘
(ایام الصلح ص۱۵۹، خزائن ج۱۴ص۴۰۷)
چیلنج تو بڑے زور سے دیا جاتاہے۔ لیکن جب ایک مرد خدا سرتاج چشتیاء (پیر صاحب گولڑوی) آپ کے مقابلہ کے لئے لاہور میں جاتے ہیں۔ توجری اﷲ کو قادیان کی چاردیواری سے نکلتا موت ہو جاتا ہے۔
مرزاقادیانی بدزبانی اور بدکلامی میں استاد زمانہ مانے گئے ہیں۔ آپ کی بدگوئی سے نہ کوئی چھوٹا بچا ہے نہ بڑا۔ دیکھئے! غوث وقت قطب دوران حضرت پیر صاحب گولڑویؒ کی نسبت اپنی کتاب مواہب الرحمن میں کیسی ہرزہ سرائی کی ہے۔ لکھا ہے: ’’خبیث وخبیث ما یخرج من فیہ‘‘ (یہ شخص خود بھی پلید ہے اور اس کے منہ سے جو کچھ نکلتا ہے وہ بھی پلید ہے) ٹھیک ہے: ’’المرء یقیس علیٰ نفسہ اور کل اناء یترشح بمافیہ‘‘ اب دیکھئے سراپا اخلاق حضرت