نذر مُحَقّر!
میں اپنی اس ناچیز تصنیف کو خلوص قلب سے بندگان عالی حضرت قبلہ خواجہ پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑویؒ سجادہ نشین گولڑہ شریف کے اسم گرامی سے معنون کرتا ہوں۔ ماشاء اﷲ! آپ اوج فضل وکمال کے نیّر تاباں اور سپہر علم وعرفان کے مہر درخشاں ہیں۔ اسلام واسلامیان کو آپ کی ذات والا پر فخر وناز ہے۔ آپ ہی وہ مقدس ہستی ہیں جن کو شرف حسب ونسب کے علاوہ جملہ علوم ظاہریہ وباطنیہ میں کمال حاصل ہے۔ خلق خدا آپ کے چشمہ فیض سے سیراب ہورہی ہے اور عقیدت مندان دربار آپ کے سایۂ عاطفت میں دینی ودنیوی برکات سے مالا مال ہورہے ہیں۔ اس کتاب کو آپ کے نام نامی سے معنون کرنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جن مقدمات کا کتاب ہذا میں تذکرہ ہے ان میں خاکسار کو کامیابی اور مخالف فریق کو شرمناک شکست خدا کے فضل اور آپ ہی کی دعا وبرکت کا نتیجہ ہے۔
آپ ہی نے لاہور شاہی مسجد میں رونق افروز ہوکر حق کا جھنڈا بلند کیا اور دعویدار نبوت ورسالت مرزائے قادیان کو میدان میں مقابلہ کے لئے للکارا۔ لیکن آپ کے علمی تبحر اور مسلم الثبوت کمالات سے دہشت زدہ ہوکر قادیانی کو سوائے قادیان کی چاردیواری میں مختفی ہونے کے چارہ نظرنہ آیا۔ اسی روز سے مرزائیت کا طلسم ٹوٹ کر دجالی فتنہ کا استیصال ہوچکا تھا۔ قادیانی کا رہا سیاہ پردہ مقدمہ بازی میں فاش ہوکر اس کے دجل وفریب کا پول کھل گیا اور اس کے مکروتلبیس کا خاتمہ ہوگیا۔
ایزد متعال ہمارے غوث وقت‘ قطب زمان‘ حضرت پیر صاحب کا ظل ہمایوں دیر تک متوسلین دربار کے سروں پر قائم ودائم رکھے ؎
ایں دعا از من واز جملہ جہاں آمیں باد
اخیر میں خاکسار اپنی یہ نذر محقر با میدقبولیت بارگاہ عالی میں پیش کرنے کی جسارت کرتا ہے۔
گر قبول افتد زہے عزو شرف
خاکسار: مصنف