مرزاغلام احمد قادیانی کی زندگی کا دور اوّل
میں چاہتا ہوں کہ اس مضمون میں مرزاغلام احمد قادیانی کے عقائد تدریجی وارتقائی بیان کردوں تاکہ مسلمانوں کو معلوم ہو جائے کہ وہ پہلے کیا تھے اور بعد میں کیا ہو گئے۔ مرزاقادیانی اپنی زندگی کے دور اوّل میں تو نہایت خوش عقیدہ نظر آتے ہیں۔ انبیاء اور اولیاء سب کی عظمت کا دم بھرتے ہیں۔ چنانچہ وہ ایک جگہ کہتے ہیں کہ: ’’میرا اعتقاد یہ ہے کہ کوئی دین اسلام کے بغیر نہیں اور میں کوئی کتاب بغیر قرآن کے نہیں رکھتا اور میرا کوئی محمد مصطفیٰﷺ کے نہیں جو خاتم النّبیین ہیں۔ جن پر خدا نے رحمتیں اور برکتیں نازل کی ہیں اور اس کے دشمن پر لعنت بھیجی ہے۔ گواہ رہ کہ میرا تمسک قرآن شریف ہے اور رسول اﷲﷺ کی حدیث جو کہ چشمہ حق ومعرفت ہے۔ میں پیروی کرتا ہوں اور تمام باتوں کو قبول کرتا ہوں جو کہ خیرالقرون میں باجماع صحابہ صحیح قرار پائی ہیں۔ نہ ان پر کوئی زیادتی کرتا ہوں اور نہ کمی اور اسی اعتقاد پر زندہ رہوں گا اور اسی پر میرا خاتمہ وانجام ہوگا اور ہر شخص ذرہ بھر بھی شریعت محمدیہ میں کمی بیشی کرے یا کسی اجماعی عقیدہ کا انکار کرے۔ اس پر خدا اور فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت ہو۔‘‘
(مرزاغلام احمد کا مکتوب عربی بنام مشائخ ہند مندرجہ انجام آتھم ص۱۴۴، خزائن ج۱۱ ص۱۴۴)
موصوف نے یہ کہا ہے ’’ان تمام امور کا قائل ہوں جو اسلامی عقائد میں داخل ہیں۔ جیسا کہ سنت الجماعت کا عقیدہ ہے۔ ان سب باتوں کو مانتا ہوں جو قرآن وحدیث کی رو سے مسلم الثبوت ہیں اور سیدنا حضرت محمد مصطفیﷺ کی ختم المرسلین بعد کے کسی دوسرے مدعی نبوت اور رسالت کو کافر اور کاذب جانتا ہوں۔ میرا یقین ہے کہ وحی رسالت آدم صفی اﷲ سے شروع ہوئی اور جناب رسول اﷲﷺ پر ختم ہوئی۔ اس میری تحریر پر ہر ایک شخص گواہ ہے۔‘‘
(اعلان مورخہ ۲؍اکتوبر ۱۸۹۱ئ، مندرجہ تبلیغ رسالت ج۲ مجموعہ اشتہارات ج۱ ص۲۳۱)
ایک اور مقام پر کہتے ہیں کہ: ’’ہم اس بات کے لئے بھی خدا کی طرف سے مامور ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو سچا اور راست باز نبی مانیں اور ان کی نبوت پر ایمان لائیں اور ہماری کتاب میں کوئی ایسا لفظ بھی نہیں جو ان کی شان بزرگ کے خلاف ہو۔‘‘
(ایام صلح ٹائٹل ص۲، خزائن ج۱۴ ص۲۲۸)