اور سنئے، مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’اب نہ کوئی جدید نبی حقیقی معنوںکی رو سے آسکتا ہے اور نہ کوئی قدیم۔‘‘ (سراج منیر ص۳، خزائن ج۱۲ ص۵)
یہ عبارت بھی نبوت کے دعویٰ سے پہلے کی ہے۔ یہاں آپ بھی حقیقی معنوں سے مراد اصطلاحی لیتے ہیں۔
اور سنئے، مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’لیکن باربار کہتا ہوں کہ ان الہامات میں جو لفظ مرسل یا رسول یا نبی کا میری نسبت آتا ہے وہ اپنے حقیقی معنوں پر مستعمل نہیں ہے۔‘‘
(انجام آتھم ص۲۷، خزائن ج۱۱ ص۲۷)
اس عبارت میں بھی اصطلاحی معنے مراد ہیں۔ مرزاقادیانی کی یہی تو حکمت عملی تھی۔ پہلے پہلے ان الفاظ کو جب استعمال کرتے تھے جماعت کے منتشر ہو جانے کے خوف سے حقیقی معنوں کی قید لگا کر مریدوں کو مطمئن کر دیتے تھے۔ جب دیکھا کہ مریدوں کی اجنبیت دور ہوگئی اور یہ تو میرے ہی ایک دعویٰ کو مان لیتے ہیں تو اب نبی کے حقیقی معنوں پر غور شروع ہوگئی۔ یعنی اصطلاحی معنوں پر لاہوری تحریف مشہور ہے۔ یہاں لغوی معنے مراد لے کر اپنا مطلب نکالنا چاہتے ہیں۔ نبی کے یہ معنے کہ خدا سے بذریعہ وحی خبر پانے والا اور شرف مکالمہ مخاطبہ سے مشرف ہو۔ بلحاظ لغت نبی کے اتنے بڑے معنے کہاں ہوسکتے ہیں۔ دیکھو نبی کریم بذریعہ وحی قرآن پانے والے تھے اور شرف مکالمہ مخاطبہ الٰہیہ سے بھی مشرف تھے ور نہ نبی تو نباء سے مشتق ہے۔ جس کے معنے ہیں صرف خبر دینے والا۔ خدا کی بھی قید نہیں۔ لو سنو! مسٹر محمد علی صاحب فرماتے ہیں: ’’نبی کے لغوی معنی صرف خبر دینے والے کے ہیں۔‘‘ (تفسیر بیان القرآن ص۷۲)
دیکھئے! آپ کے امیر جماعت ہمارے لغوی معنوں سے متفق ہیں اور اب تو مرزاقادیانی بھی ہمارے متفق ہوگئے۔ پہلے مرزاقادیانی اصطلاحی معنوں کو لغوی کہہ دیا کرتے تھے۔ جیسے پہلے نبی کو محدث اور محدث کو نبی کہہ دیا کرتے تھے۔ اب چونکہ مرزاقادیانی نے لائن بدل دی ہے۔ اب لغت اور اصطلاح کے معنی علیحدہ علیحدہ کرتے ہیں۔ سنئے! مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’پھر نبی کے لفظ پر بحث کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دعویٰ نبوت ہے۔ میں کہتا ہوں یہ تو نری لفظی نزاع ہے۔ نبی تو خبر دینے والے کو کہتے ہیں۔‘‘ (الحکم نمبر۳۹، ج۹، مورخہ ۱۰؍نومبر ۱۹۰۵ئ)
دیکھئے! مرزاقادیانی اب نبی کے معنی لغت کی رو سے صحیح بتلانے لگے ہیں۔ حکیم