مثیل موعود ہونے کا دعویٰ ہے اور مسیح موعود ابھی آئے گا۔ آج آپ بھی اس کم فہمی میں مبتلا ہیں کہ مرزاقادیانی کو مسیح موعود خیال کئے بیٹھے ہیں۔ گویا آپ موعود کے مثیل ہیں اور موعود کا آنا ابھی باقی ہے۔ لو مرزاقادیانی کے منہ سے خود سنو۔ انہوں نے کس نبوت کا انکار کیا ہے۔
چنانچہ فرماتے ہیں: ’’اور جس جس جگہ میں نے نبوت سے انکار کیا ہے صرف ان معنوں سے کیا ہے کہ میں مستقل طور پر کوئی شریعت لانے والا نہیں ہوں۔‘‘
(ایک غلطی کا ازالہ ص۴، خزائن ج۱۸ ص۲۱۰)
اس میں تشریعی نبوت کا انکار ہے۔ مرزاقادیانی تو کہتے ہیں کہ مجھ کو غیرتشریع نبوت نبی کریم کی پیروی سے ملی ہے۔
قولہ… نبی تو سب تشریعی ہوتے ہیں۔ بغیر شریعت کے کوئی نبی نہیں ہوتا۔
اقول… آپ کے موجودہ امیر مسٹر محمد علی صاحب فرماتے ہیں: ’’انت منی بمنزلۃ ہارون موسیٰ‘‘ چونکہ صرف اسی قدر کہنے سے یہ خیال گذر سکتا تھا کہ شاید جس طرح ہارون غیرتشریعی نبی تھے اور موسیٰ صاحب شریعت۔ اسی طرح حضرت علیؓ بھی آپﷺ کے ساتھ ایک غیرتشریعی نبی ہوں تو اس امکان کے دور کرنے کے لئے فرمایا۔ ’’الاّ انہ لا نبی بعدی‘‘ میرے بعد کوئی بھی نبی نہیں نہ تشریعی نہ غیرتشریعی۔‘‘ (النبوۃ فی الاسلام طبع اوّل ص۸۸،۸۹)
اس عبارت سے ظاہر ہے کہ پہلے غیرتشریعی نبی ہوتے رہے ہیں۔ اب سنئے۔ مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’اب بجز محمدی نبوت کے سب نبوتیں بند ہیں۔ شریعت والا نبی کون نہیں آسکتا اور بغیر شریعت کے نبی ہوسکتا ہے۔ مگر وہی جو پہلے امتی ہو۔‘‘
(تجلیات الٰہیہ ص۲۵، خزائن ج۲۰ ص۴۱۲)
دیکھئے مرزاقادیانی غیرتشریعی نبوت کو جاری مانتے ہیں، اور سنئے! مرزاقادیانی فرماتے ہیں: ’’لیکن باوجود اس کے بعد توریت کے صدہا نبی بنی اسرائیل سے آئے کہ کوئی نئی کتاب ان کی ساتھ نہیں تھی۔‘‘ (شہادۃ القرآن ص۴۴، خزائن ج۶ ص۳۴۰)
ہاں! مسٹر محمد علی صاحب نے ایک اصول نیا وضع کیا۔ جو مرزاقادیانی کے برخلاف ہے۔ بلکہ اور مسلمانوں کے بھی خلاف ہے۔ وہ یہ ہے کہ کوئی نبی بغیر کتاب نہیں ہوسکتا۔ ہر نبی کے لئے کتاب لانا ضروری ہے۔ مرزاقادیانی تو کہتے ہیںکہ صدہا نبی بغیر کتاب کے بنی اسرائیل میں آئے۔ پھر آپ کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کی اس عبارت کا ہم یہ مطلب لیں گے کہ کوئی نئی شریعت