فرماتے ہیں: ’’پس نادان ہیں وہ لوگ جو یہ خیال کرتے ہیں کہ حضرت مسیح کو خداتعالیٰ نے آسمان پر اٹھا لیا اور وہ اب تک زندہ موجود ہیں۔ کیونکہ یہ عقیدہ نہ صرف قرآن کریم کے مخالف ہے۔ بلکہ مسیحیت کو اس سے طاقت حاصل ہوتی ہے اور رسول کریمﷺ کی اس میں ہتک ہے۔بلکہ خداتعالیٰ کی بھی ہتک ہے۔ کیونکہ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ نعوذ باﷲ! ظالم ہے۔‘‘
(ندائے ایمان نمبر۲ ص۴)
پھر حقیقت النبوت میں لکھتے ہیں: ’’گو اس میںکوئی شک نہیں کہ یہ عقیدہ مشرکانہ ہے۔ حتیٰ کہ حضرت مسیح موعود باوجود مسیح کا خطاب پانے کے دس سال تک یہی خیال کرتے رہے۔‘‘
(حقیقت النبوۃ ص۱۴۲)
گویا مسیح بننے کے بعد بھی دس سال تک مشرک رہے۔ اس سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ مرزاقادیانی کی مذہبی حالت کس قدر ردی اور گری ہوئی تھی۔ وہ تو خدا بھلا کرے سرسید احمد خان کا کہاں وہ تفسیر لکھیں اور مرزاقادیانی کی نجات ہو۔ سرسید صاحب نے تفسیر لکھی اس میں یہ بھی لکھا کہ مسیح فوت ہوگیا۔ جیسا کہ اس عبارت سے ثابت ہے ’’پہلی تین آیتوں سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا اپنی موت سے وفات پاجانا، علانیہ ظاہر ہے۔ مگر جو کہ علمائے اسلام نے بہ تقلید بعض فرق نصاریٰ کے قبل اس کے کہ مطلب قرآن مجید پر غور کریں۔ یہ تسلیم کر لیا تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ آسمان پر چلے گئے۔ اس لئے انہوں نے ان آیتوں کے بعض الفاظ کو غیرمحقق تسلیم کے مطابق کرنے کو بیجا کوشش کی ہے۔ پہلی آیت میں صرف لفظ متوفیک کا واقعہ ہے۔ جس کے معنے عموماً ایسے مقام پر موت کے لئے جاتے ہیں۔ خود قرآن مجید سے اس کی تفسیر پائی جاتی ہے۔ جہاں خدا نے فرمایا: ’’اﷲ یتوفی الانفس حین موتہا‘‘ ابن عباس اور محمد بن اسحاق نے جیسا کہ تفسیر کبیرمیں لکھا ہے: ’’متوفیک‘‘ کے معنی ممیتک کے کئے ہیں۔ یہی حال لفظ توفیتنی کا ہے۔ جو دوسری آیت میں ہے اور جس کے صاف معنے یہ ہیں کہ جب تو نے مجھے موت دی یعنی جب میں مر گیا اور ان میں نہیں رہا تو تو ان پر نگہبان تھا۔‘‘ (تفسیر القرآن ج۲ ص۴۷)
اس تفسیر کو جب مرزاقادیانی نے پڑھا تو آنکھیں کھل گئیں اور مسیحیت کا راستہ صاف نظر آنے لگا اور وفات مسیح کے الہاموں کی بارش شروع ہوگئی۔ بجائے اصلی مسیح کے بروزی مسیح کے قائل ہوگئے۔ لیکن مرزاقادیانی نے یہ حکمت عملی کی کہ اپنے عقیدہ کو مولویوں کے خوف سے پوشیدہ رکھا اور کھلم کھلا اعلان نہیں کیا۔ البتہ (براہین احمدیہ حصہ سوم ص۲۵۷) میں اس پوشیدہ عقیدہ کا بوجہ ایک شدید ضرورت کے اظہار کیاگیا ہے۔ مگر ایسے رنگ میں اظہار ہے کہ ہر شخص معمولی نظر سے اس کو