M!
حامداً ومصلیاً
جاء الحق وزہق الباطل ان الباطل کان زھوقاً
ناظرین رسالہ پر مخفی نہ رہے کہ پچھلے دنوں مرزا سندھی بیگ عرف غلام احمد قادیانی نے ایک عربی کتاب تالیف کی تھی جس کا نام اس نے (بفحوائے برعکس نہند نام زنگی کافور) ’’الہدیٰ‘‘ رکھا تھا اس نے اپنی عادت قدیمہ کے مطابق اس کتاب میں جو دروغ بیانی کی ہے اس کی تصریح کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ایسی دروغ بیانیوں کی تردید بارہا ہوچکی ہے۔ لیکن کتاب مذکورکے اخیر میں سخت بیباکی سے یہ ظاہر کیا ہے کہ اہل کشمیر نے شہادت دی ہے کہ خانیار میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر ہے اور شاہدین کی فہرست میں علماء اور دیگر کے نام لکھے ہیں۔ ’’چہ دلاور است وزدے کہ بکف چراغ دارد۔‘‘ اس میں کچھ شک نہیں کہ مرزا کو نہ خوف خدا ہے نہ وہ شرم کرتا ہے۔ پھر بھی تعجب ہے کہ وہ اتنا بھی خیال نہیں کرتا کہ ایسے کذب اور بہتان کے ظاہر ہونے پر جو رسوائی اور ذلت ہوگی اس کا کیا علاج۔ آخر بے شرمی اور بے حیائی کی کوئی حد بھی ہے۔ جناب مولانا مولوی پیر ابوالحسن غلام مصطفیٰ صاحب دام برکاتہ نے ایک خط بہ دریافت اس امر کے کہ آیا مرزا کا یہ بیان صحیح ہے؟ حاجی محی الدین شاہ صاحب ساکن سری نگر محلہ سراے بل کو لکھا۔ اس کے جواب میں ایک طویل تحریر معہ دستخط ومواہیر علماء وسادات کشمیر وغیرہ مولوی صاحب موصوف کی خدمت میں روانہ کی جو رسالہ کی صورت میں ہدیۂ ناظرین ہے۔
ناظرین! پر یہ ظاہر کردینا بھی ضروری ہے کہ خانیار میں ایک شخص مسمی (یوز آسف) کی قبر ہے جس کی نسبت کشمیر میں مختلف روایات مشہور ہیں۔ جیسا کہ رسالہ ہذا کے مطالعہ سے ظاہر ہوگا مگر اصل بات یہ ہے کہ یہ شخص شولا پت نامی مقام کا رہنے والا تھا اور ایک راجہ کا بیٹا تھا جو سیر کرتے کرتے کشمیر میں پہنچا تھا۔ اس کی سوانح عمری عربی زبان میں لکھی جاچکی تھی۔ جس کا اردو ترجمہ بنام یوز آسف ہی مطبع حیدرآباد میں طبع ہوا۔ مگر مرزاخواہ مخواہ اس کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام بتاتا ہے۔ جس کی کوئی سند نہیں۔
اگر اصل تحریر کشمیر کی کوئی صاحب دیکھنا چاہیں تو جناب مولانا ابوالحسن غلام مصطفیٰ صاحب کی خدمت میں بمقام محلہ گھمباراں جاکر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔
الملتمس: غلام احمد، عافاہ اﷲ واید، امرتسری۔ مورخہ یکم؍ستمبر ۱۹۰۲ء