ہندوستان میں سید احمد شہید ومولانا اسماعیل شہید اور ان کے رفقاء وجان نثار جن کے دل جذبۂ جہاد سے سرشار تھے، اسلام کی حفاظت واقامت کے لئے سرتاپا مجاہد نظر آتے تھے۔ لوگ ہزاروں کی تعداد میں ان کے گرد جمع ہونے لگے۔ ان کی کوششوں سے مسلمانوں کے اندر جہاد فی سبیل اﷲکا جذبہ بھڑک اٹھا اور وہ ہر طرح کی قربانی دینے کے لئے تیار ہوگئے۔ اس صورتحال میں انگریزوں کے اندر تشویش کا پیداہونا ایک لازمی بات تھی۔ ایسی ہی ایک تحریک سوڈان میں شیخ احمد سوڈانی لے کر اٹھے جس سے سوڈان میں انگریزوں کا اقتدار ڈگمگانے لگا۔ پھر علامہ جمال الدین افغانی کی تحریک اتحاد اسلامی انگریزوں کے لئے کم تشویش کا باعث نہ تھی۔ ان سارے کارناموں کا جائزہ لینے کے بعد انگریز اس نتیجہ پر پہنچے کہ مسلمانوں کے جذبات پر قابو پانے کے لئے ضروری ہے کہ مذہبی طور پر ان کو حکومت کی وفاداری پر آمادہ کیا جائے تاکہ ان کے بعد ان کو مسلمانوں کی طرف سے خطرہ باقی نہ رہے اور وہ اطمینان سے حکمرانی کر سکیں۔ اس خدمت کے لئے انگریزوں نے مرزاغلام احمد قادیانی کو سب سے موزوں ومفید پایا۔
مرزاقادیانی ایک ذہنی مریض تھے جیسے مالیخولیا، مراق وغیرہ۔ آپ کے دل میں یہ خیالات موجزن تھے کہ وہ دنیا کی ایک عظیم شخصیت کے روپ میں ابھریں۔ دنیا کے اندر ان کے ماننے والوں کی تعداد کثیر ہو۔ ان کو وہی مقام حاصل ہو جو جناب نبی کریمﷺ کو حاصل ہے۔ اپنے زعم باطل کو حاصل کرنے کے لئے انہوں نے اپنے آپ کو عالم دین پھر مجدددین کا درجہ دینے کی کوشش کی، پھرامام مہدی بنے، اس کے بعد مثیل مسیح، پھر مسیح موعود اور آخر میں مستقل نبی بن بیٹھے۔
انگریزوں کی راہ میں چونکہ جہاد واتحاد اسلامی اور اس راستے میں جان ومال کی قربانی کا جذبہ سب سے بڑی رکاوٹیں تھیں۔ لہٰذا انگریز یہی چاہتا تھا کہ ایک شخص ان کا موئد اور مددگار ہو جو ان کے راستے کی ساری رکاوٹیں صاف کرے۔ مرزاقادیانی نے کمال خوبصورتی کے ساتھ انگریزوں کی اس خواہش کو پورا کرنے کی کوشش کی۔ اپنی کوششوں کا ذکر مرزاقادیانی ان الفاظ میں کرتے ہیں: ’’میری عمر کا اکثر حصہ اس سلطنت انگریزی کی تائید اور حمایت میں گزرا ہے اور ممانعت جہاد اور انگریز کی اطاعت کے بارے میں اس قدر کتابیں لکھی ہیں اور اشتہارات شائع کئے ہیں کہ اگر وہ رسائل اور کتابیں اکٹھی کی جائیں تو پچاس الماریاں ان سے بھر سکتی تھیں۔ میں نے ایسی کتابوں کو عرب اور مصر اور شام اور کابل اور روم تک پہنچا دیا۔‘‘
(تریاق القلوب ص۵، خزائن ج۱۵ ص۱۵۵)