مواقف مکذبین کی سزا سے بچ نہیں سکیں گے۔ پس اگر وہ سزا جو انسان کے ہاتھوں سے نہیں بلکہ محض خدا کے ہاتھوں سے ہے جیسے طاعون وہیضہ وغیرہ مہلک بیماریاں آپ پر میری زندگی میں ہی وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔ یہ کسی وحی یا الہام کی بناء پر پیشین گوئی نہیں بلکہ محض دعا کے طور پر میں نے خدا سے فیصلہ چاہا ہے اور میں خدا سے دعا کرتا ہوں کہ میرے مالک بصیر وقدیر جو علیم وخبیر ہے، جو میرے دل کے حالات سے واقف ہے اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افتراء کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک! میں عاجزی سے دعا کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر دے اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ (آمین) مگر اے میرے کامل اور صادق خدا اگر مولوی ثناء اﷲ ان تہمتوں میں جو مجھ پر لگاتا ہے۔ حق پر نہیں تو میں عاجزی سے تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان کو نابود کر مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون وہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے بجز اس صورت کے کہ وہ کھلے طور پر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدنامیوں سے توبہ کرے جن کو فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھ کو دکھ دیتا ہے (آمین یا رب العالمین) میں ان کے ہاتھوں بہت ستایا گیا اور صبر کرتا رہا۔ مگر اب میں دیکھتا ہوں کہ ان کی بدزبانی حد سے گزر گئی۔ مجھے ان چوروں اور ڈاکوؤں سے بھی بدتر جانتے ہیں۔ جن کا وجود دنیا کے لئے سخت نقصان رساں ہوتا ہے اور انہوں نے تہمتوں اور بدزبانیوں میں لاتقف مالیس لک بہ علم پر بھی عمل نہیں کیا اور تمام دنیا سے مجھ کو بدتر جانتا ہے اور دور، دور ملکوں تک میری نسبت یہ پھیلا دیا کہ یہ شخص درحقیقت مفسد، ٹھگ اور دوکاندار اور کذاب اور مفتری اور نہایت درجہ کا بدآدمی ہے۔ سو اگر ایسے کلمات، حق کے طالبوں پر بداثر ڈالتے تو میں ان تہمتوں پر صبر کرتا رہا۔ مگر میں دیکھتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ انہیں تہمتوں کے ذریعہ سے سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تو نے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے۔ اس لئے اب میں تیرے ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اﷲ میں سچا فیصلہ فرما اور وہ جو تیری نگاہ میں حقیقت میں مفسد اور کذاب ہے اس کو صادق کی ہی زندگی میں دنیا سے اٹھالے یا کسی اور نہایت آفت میں جو موت کے برابر ہوسکتی ہے (میں مبتلا) کر۔ اے میرے آقا! پیارے مالک تو ایسا ہی کر (آمین ثم آمین) بالآخر مولوی صاحب سے التماس ہے کہ وہ میرے اس مضمون کو اپنے پرچہ میں چھاپ دیں اور جو