اس کی ضرورت ہی باقی نہ رہے گی۔ بلکہ یہ شریعت محمدیہ کا ہی حکم ہوگا جس کو حضرت مسیح علیہ السلام نافذ فرمائیں گے۔
مرزاقادیانی بے چارے جزیہ تو کیا منسوخ کرتے وہ ساری عمر انگریزوں کے باج گزار رہے اور انکم ٹیکس معاف کرانے کے لئے ان سے التجائیں کرتے رہے۔ وہ مال کو پانی کی طرح بہادے گا اور کوئی صدقہ خیرات قبول کرنے والا نہ ملے گا یعنی سب لوگ غنی ہو جائیں گے اور کوئی سائل اور ضرورت مند باقی نہ رہے گا۔ مرزاقادیانی کے زمانہ میں اس کے برعکس ہوا۔ ہندی مسلمان انگریزوں کے محکوم ہوگئے۔ وہ غربت وافلاس کا شکار ہوئے۔ حتیٰ کہ مرزاقادیانی کو بھی اپنے خانگی اخراجات، لنگر خانہ وپریس اور کتب خانہ چلانے کے لئے لوگوں سے چندہ مانگنے پر مجبور ہونا پڑا۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کے وقت عبادت اتنی لذیز ہو جائے گی کہ ایک سجدہ کے مقابلہ میں دنیا ومافیہا کی دولت حقیر معلوم ہو گی۔ مرزاقادیانی کے زمانے میں خداپرستی کی بجائے دنیا پرستی وعیش وعشرت کا غلبہ ہوا۔ حتیٰ کہ مرزاقادیانی کا گھرانہ بھی محفوظ نہ رہ سکا۔ جن لوگوں نے مرزاقادیانی کے اہل بیت کو اندر سے جاکر دیکھا ان کی روایت کے مطابق مرزاقادیانی کے خلیفہ مرزا محمود کے گھرانہ اور فرنگی تہذیب اور اس کی معاشرت کے درمیان فرق کرنا ممکن نہ تھا۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق، شام کی جامع مسجد کے مشرقی منارہ پر آسمان سے نازل ہوں گے۔ نازل ہونے کے بعد مقام لد پر دجال کو قتل کریں گے ایک حدیث میں ہے کہ وہ حج وعمرہ کریں گے۔ مکہ مکرمہ آئیں گے اور پھر مدینہ منورہ آئیں گے اور روضۂ مبارک پر حاضر ہوکر درود وسلام بھیجیں گے۔ حدیث میں ہے کہ نزول کے بعد چالیس سال زندہ رہیں گے۔ مدینہ منورہ میں وفات پائیں گے اور حضور نبی کریمﷺ کی قبر مبارک کے قریب مدفون ہوں گے۔
مسیح علیہ السلام جس منارہ پر نزول فرمائیں گے وہ منارہ پہلے سے موجود ہوگا۔ جب کہ مرزاقادیانی نے نازل ہونے سے پہلے لوگوں سے چندہ مانگ کر منارہ بنایا جس کا نام منارۃ المسیح رکھا۔ معلوم نہیں وہ کون سا دجال ہے جس کو مرزاقادیانی نے قتل کیا اور کہاں قتل کیا؟ مرزاقادیانی کو نہ حج کی توفیق ملی اور نہ عمرہ کی تو وہ روضہ پاک پر حاضری دے کر سلام کیا پیش کرتے۔ مرزاقادیانی دعویٰ نبوت کے چند سال بعد لاہور میں مر گئے اور قادیان میں دفن ہوئے۔