ایک حد تک مستوجب سزاٹھہرتا ہے اور نبوت کے معنی بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ امور متذکرہ بالا اس میں پائے جائیں۔‘‘ (توضیح المرام ص۱۸، خزائن ج۳ ص۶۰)
’’یہ کہنا کہ نبوت کا دعویٰ کیا ہے کس قدر جہالت، کس قدر حماقت اور کس قدر حق سے خروج ہے۔ اے نادانو! میری مراد نبوت سے یہ نہیں کہ میں نعوذ باﷲ آنحضرتﷺ کے مقابل کھڑا ہوکر نبوت کا دعویٰ کرتا ہوں یا کوئی نئی شریعت لایا ہوں۔ صرف مراد میری نبوت سے کثرت مکالمت ومخاطبت الٰہیہ ہے جو آنحضرتﷺ کی اتباع سے حاصل ہے۔ سو مکالمہ ومخاطبہ کے آپ لوگ بھی قائل ہیں۔ پس یہ صرف لفظی نزاع ہوئی یعنی آپ لوگ جس امر کا نام مکالمہ اور مخاطبہ رکھتے ہیں میں اس کی کثرت کا نام بموجب حکم الٰہی نبوت رکھتا ہوں۔ ولکل ان یصطلح!‘‘
(تتمہ حقیقت الوحی ص۶۸، خزائن ج۲۲ ص۵۰۳)
نبی اﷲ
’’مسیح موعود آنے والا ہے۔ اس کی علامت یہ لکھی ہے کہ وہ نبی اﷲ ہوگا یعنی خداتعالیٰ سے وحی پانے والا۔ لیکن اس جگہ نبوت تامہ کاملہ مراد نہیں کیونکہ نبوت کاملہ، تامہ پر مہر لگ چکی ہے۔ بلکہ وہ نبوت مراد ہے جو محدثیت کے مفہوم تک محدود ہے جو مشکوٰۃ شریعت محمدیہ سے نور حاصل کرتی ہے سو یہ نعمت خاص طور پر اسی عاجز کو دی گئی۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۷۰۱، خزائن ج۳ ص۴۷۸)
مرزاغلام احمد قادیانی وقتاً فوقتاً اپنا مؤقف بدلتے رہے۔ انہوں نے ولایت اور محدثیت سے نبوت کی طرف کمال طریقہ سے پیش قدمی کی۔ جس بات کا وہ صریحاً انکار کر چکے تھے۔ آہستہ آہستہ اس کے اقرار کی طرف بڑھتے رہے۔ یہ صرف آپ ہی کا ملکہ تھا، شاید کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہوسکا۔ سب سے پہلے مسیح موعود کا سرسری طور پر ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’اوّل تو جاننا چاہئے کہ مسیح کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے جو ہمارے ایمانیات کا کوئی جز یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو۔ بلکہ صدہا پیش گوئیوں میں سے ایک پیشین گوئی ہے جس کو حقیقت اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں۔ جس زمانہ تک یہ پیش گوئی بیان نہیں کی گئی تھی اس زمانہ تک اسلام کچھ ناقص نہیں تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کچھ کامل نہیں ہوگیا۔‘‘
(ازالہ اوہام طبع اوّل ص۱۴۰، خزائن ج۳ ص۱۷۱)
’’اگر یہ اعتراض پیش کی جائے کہ مسیح کا مثیل بھی نبی چاہئے۔ کیونکہ مسیح نبی تھا تو اس کا