کے بعد کسی کو نبی یا رسول مانتا ہے اور وہ باربار اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ میرا عقیدہ وہی ہے جو تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ اب اﷲ کے آخری نبیﷺ کے بعد کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ اس کے خلاف آپﷺ کے بعد میں کسی کو نبی اور رسول مان کر کیسے اسلام سے خارج ہوسکتا ہوں۔ اس واضح اقرار کے بعد غور فرمائیے کہ مرزاقادیانی کس طرح عقیدہ نبوت سے دور ہوتے چلے گئے۔ بالآخر انہوں نے ایک ظلی نبی، پھر مستقل نبی ورسول ہونے کا دعویٰ کر دیا۔ بلکہ آخر میں اپنے آپ کو افضل الانبیاء ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی۔
چنانچہ آپ لکھتے ہیں: ’’ان پر واضح رہے کہ ہم بھی نبوت کے مدعی پر لعنت بھیجتے ہیں اور ’’لا الہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘ کے قائل ہیں اور آنحضرتﷺ کی ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں اور وحی نبوت نہیں بلکہ وحی ولایت جو زیرسایۂ نبوت محمدیہ اور بہ اتباع آنجنابﷺ سے اولیاء اﷲ کو ملی ہے۔ اس کے ہم قائل ہیں اور اس سے زیادہ جو شخص مجھ پر الزام لگائے وہ تقویٰ اور دیانت کو چھوڑتا ہے۔ غرض نبوت کا دعویٰ نہیں صرف ولایت اور مجددیت کا دعویٰ ہے۔‘‘
(اشتہار مرزا مورخہ ۲۰؍شعبان ۱۳۱۴ھ، تبلیغ رسالت ج۶ ص۳۷۲، مجموعہ اشتہارات ج۲ ص۲۹۷،۲۹۸)
’’اور خدا کلام وخطاب کرتا ہے اس امت کے ولیوں کے ساتھ اور ان کو انبیاء کا رنگ دیا جاتا ہے۔ مگر وہ حقیقت میں نبی نہیں ہوتے کیونکہ قرآن کریم نے شریعت کی تمام حاجتوں کو مکمل کر دیا۔‘‘ (مواہب الرحمن ص۶۶، خزائن ج۱۹ ص۲۸۵)
’’میرا نبوت کا کوئی دعویٰ نہیں، یہ آپ کی غلطی ہے یا آپ کسی خیال سے کہہ رہے ہیں۔ کیا یہ ضروری ہے کہ جو الہام کا دعویٰ کرتا ہے وہ نبی بھی ہو جائے۔ میں تو محمدی اور کامل طور پر اﷲ اور رسول کا متبع ہوں اور ان نشانوں کا نام معجزہ رکھنا نہیں چاہتا بالکل ہمارے مذہب کی رو سے ان نشانوں کا نام کرامات ہے جو اﷲ اور رسول کی پیروی سے دئیے جاتے ہیں۔‘‘
(جنگ مقدس ص۶۷، خزائن ج۶ ص۱۵۶)
’’اوّل تو اس عاجز کی بات کو یاد رکھیں کہ ہم لوگ معجزہ کا لفظ اسی محل پر بولا کرتے ہیں جو کوئی خوارق عادت کسی نبی یا رسول کی طرف منسوب ہو۔ لیکن یہ عاجز نہ نبی ہے نہ رسول ہے۔ صرف نبی معصوم محمدﷺ کا ایک ادنیٰ خادم اور پیرو ہے اور رسول مقبول کی برکت اور متابعت سے یہ انوار اور برکات ظاہر ہورہے ہیں سو اس جگہ کرامت کا لفظ موزوں ہے نہ کہ معجزے کا۔‘‘
(اخبار الحکم قادیان ج۵ نمبر۲۳، منقول از قمر الہدیٰ ص۵۸، مؤلفہ قمرالدین جہلمی قادیانی)