ملفوظات حکیم الامت جلد 14 - یونیکوڈ |
|
اس قدر زعم نہ تھا جیسا اب لوگوں کو ہے اب تو لوگ چالیس پچاس سے کم بات ہی نہیں کرتے ـ کانپور میں ابتداء میرے پچیس روپیہ ہوئے تھے تو میں دل میں کہتا تھا اتنے روپے کیا کروں گا پھر والد صاحب نے یہ فرمایا کہ یہ تمہارا جیب خرچ ہے اور کھانے کپڑے کا میں ذمہ دار ہوں تم تکلیف نہ اٹھانا ـ اسی سلسلہ میں والد صاحب نے میری کھانا پکانے والی ملازمہ سے فرما دیا کہ دیکھو اس کے کھانے کے لئے اتنا گھی اتنا گوشت پکایا کرنا ـ اس باب میں ان کا کہنا نہ کرنا ـ تو اس صورت میں وہ پچیس روپیہ سارے ہی بچتے ـ مگر پھر بھی میں نے کبھی والد صاحب پر بار نہیں ڈالا ـ اس کے بعد میرے تیس ہو گئے پھر چالیس ہو گئے پھر پچاس ہو گئے پھر چھوڑ کر چلا آیا ـ اب تو خدا بغیر حساب دیتا ہے اس حالت میں بعضے لوگ تجویذ کرنے لگے کہ ان پر چوکیدار لگایا جاوے ـ ایک تحصیلدار نے مجھ سے مسئلہ پوچھا کہ قصبہ میں لالٹین اور سڑک وغیرہ سے سب ہی منتفع ہوتے ہیں ـ لہذا خرچ بھی سب ہی کے ذمہ ہونا چاہیے ـ آپ بھی فائدہ اٹھاتے ہیں لہذا آپ کے ذمہ بھی ہونا چاہیے یا نہیں ؟ میں نے کہا میرے ذمہ شرعا واجب تو ہے نہیں البتہ جائز ہے اور وہ بھی اس وقت جب میری مستقل آمدنی ہو ورنہ جبر ہو گا ـ اور اب چونکہ میری مستقل آمدنی نہیں ہے اس لئے جائز بھی نہیں ـ البتہ یہ جائز ہے کہ جب رفاہ عام کے لئے جس سے میں یہ سب ابواب بھی داخل ہیں ضرورت ہو تو چندہ کر لیا جاوے اس وقت مجھ سے کہا جاوے اگر میرے پاس ہو گا تو دیدوں گا مگر معین طور پر لینا دینا یہ مجھے گوارا نہیں ـ حقیقی محبت کی مثال : (347) فرمایا ـ میرے دروازہ کے سامنے کی گلی خراب تھی اور ٹاؤن میں اس کی مرمت کی منظوری نہ تھی میں نے ٹھیکیدار سے کہا کہ یہ بھی بنوا دو اور