ملفوظات حکیم الامت جلد 14 - یونیکوڈ |
|
ہوں اب اگر کسی ضروری سفر میں جاؤں تو کیسے جاؤں آج ہی نماز میں قرات ذرا زور سے پڑھ دی تھی ـ آنت اتر آئی ـ اور اگر کسی طرح چلا بھی جاؤں تو دوسرے مقام والے خفا ہوں گے کہ ہمارے یہاں کیوں نہیں آئے سفر کے بابت مختلف طبائع ہیں ـ کسی کا تحمل قوی ہوتا ہے کسی کا ضعیف ہوتا ہے ـ دوسرے بڑا مقصود جمیعت خاطر ہے ـ اگر اس میں فرق نہ آوے تو سفر بھی اچھا ہے ـ اس سے مفید تجربے حاصل ہوتے ہیں ـ حضرت عیسی علیہ السلام نے سفر بہت کیا ہے اور بعض نبیوں نے کم کیا ہے ـ بعد نبوت صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف حج اور غزوات کا سفر فرمایا ہے ـ مولانا گنگوہی ؒ کہیں نہیں جاتے تھے اگر کبھی گئے ہیں تو دیوبند یا رام پور یا گڈھی وغیرہ تک ـ میں نے بہت سفر کیا ہے کلکتہ رنگون کراچی لاہور اندھیر حیدر آباد وغیرہ - سفر سے مجھ کو یہ فائدہ ہوا کہ تجربہ بڑھا اور لوگوں کے کان میں کام کی باتیں پڑ گئیں ـ مگر اب خود خدائے تعالی نے ایسا سامان مہیا کر دیا کہ سفر بند ہو گیا ـ خیر پاپ کٹا ـ مجھ کو سفر سے تشویش بھی بہت ہوتی تھی اور مقصود ہے جمیت خاطر وہ تشویش سے فوت ہوتا تھا ـ طبقہ زندیق : (294) ( ایک صاحب نے عرض کیا کہ ایک سکھ کہتا تھا کہ ہمارے گرو نے تمباکو کو منع نہیں کیا طمع کو منع کیا تھا ـ لوگ طمع کو تمباکو غلط سمجھ گئے ـ فرمایا کیا خوب ! مسلمانوں میں بھی ایسے فقیر بہت ہیں ایک شخص کہتے تھے کہ کلیر گیا تو پیچھے سے آواز آئی اوئے مرغے او مرغے انہوں نے ادھر ادھر دیکھا تو سمجھے کہ منادی کوئی دوسرا شخص ہو گا جس کو بلایا جاتا ہے ـ پھر پکارنے والے نے کہا او مرغے تجھے ہی کو کہتا ہوں ادھر آ - کہتے تھے میں چلا گیا کہ ذرا