ملفوظات حکیم الامت جلد 14 - یونیکوڈ |
|
کہ وہ مستحقین وغیرہ کو قبضہ کرا دیں پھر وہ خوشی سے مدرسہ میں داخل کر دیں اور اگر طیب خاطر میں شبہ ہو تو مستحقین اول قرض وغیرہ لے کر اپنی طرف سے مدرسہ میں تبرعا داخل کر دیں ـ پھر وہ غلبہ یا رقم ان قستحقین کو دے دی جاوے اس کو وہ اپنے صرف میں لاویں یا قرض ادا کر دیں اور یہ دوسری صورت بہ نسبت پہلی صورت کے بے غبار ہے ـ مولوی عبید اللہ صاحب سندھی کا طرز تدریس تفسیر : (260) فرمایا ـ مولوی عبید اللہ صاحب سندھی نے مجھ سے کہا کہ ہندوؤں سے مل جانا چاہیے ـ میں نے کہا یہ کیسے ہو سکتا ہے ـ مثلا ہندوؤں نے وائسرائے پر بم پھینکا ہمارا مذہب ہم کو اس بد عہدی کی اجازت نہیں دیتا تو پھر ان کے ساتھ کیسے شرکت ہو سکتی ہے ـ ہمارا تو رہبر مذہب ہے ـ ہندوؤں کا رہبر محض غرض ہے ـ ان ہی مولوی صاحب نے دہلی میں تفسیر کا مدرسہ جاری کیا تھا ـ مگر تفسیر بالرائے کے طور پر پڑھاتے تھے ـ میں نے اس پر اعتراض کیا تو کہا کہ نو تعلیم یافتہ جماعت گو سوائے اس طریقہ کے اور کوئی طریقہ سمجھانے کا نہیں ہے ـ میں نے کہا اچھا دو طالب علم گریجویٹ مساوی استعداد کے لے لو ایک کو تم تفسیر پڑھاؤ اور دوسرے کو میں دو برس کے بعد دیکھو کون ایسی حالت میں نکلتا ہے کہ نئے شبہات والوں کی تسلی کر سکے کہا یہ صرف آپ کر سکتے ہیں مگر دوسرا نہیں کر سکتا ـ میں نے کہا بس تو یہ کام مجھ پر چھوڑ دو ـ تم مت کرو ـ کہنے لگے بہتر دہلی چلو وہاں تم ہی یہ کام کیا کرو ـ میں نے کہا دہلی جانے کی کیا ضرورت ہے وہاں طالب علموں کا خرچ بھی زیادہ ہو گا خود ان کو یہیں لاؤ ـ کم خرچ بالا نشیں کا مضمون ہے ـ پھر اس صورت میں کسی رئیس سے امداد چاہنے کی بھی ضرورت نہ ہو گی پس خاموش ہو گئے ـ مولوی عبید اللہ صاحب مخلص تھے مگر