ملفوظات حکیم الامت جلد 14 - یونیکوڈ |
|
میں سہل کر دوں گا بس پھر کیا تھا خاموش ہو گئے بس یہ لوگ کہنے کے لئے ہیں کرنا پڑے تو معلوم ہو ـ چندہ مانگنے میں وقعت نہیں : (159) ( ایک خط پڑھ کر ) فرمایا کہ ایک مولوی صاحب ہیں اور مہتمم مدرسہ بھی ہیں یہ ان کا خط ہے لکھتے ہیں کہ میں بھی مقروض ہو گیا اور مدرسہ میں بھی کچھ نہیں رہا ـ آپ رنگون اور کانپور خط لکھ دیجئے کہ لوگ مدرسہ میں روپیہ داخل کر دیں ـ میں نے جواب یہ لکھا کہ جس مدرسہ کے کام میرے ذمہ ہے اس کے لئے بھی میں نے کبھی نہیں لکھا اور اس کے مفاسد دیکھ کر نہ میں اس کو جائز سمجھتا ہوں ـ میں تو کہتا ہوں کہ ملازمین مدرسہ سے پہلے ہی کہہ دے کہ ہم تنخواہ کے ذمہ دار نہیں ـ اس طرح اگر جی چاہے کام کرو ـ اگر آ گیا تو دیدیں گے ورنہ ہم سے طلب نہ کرنا اور اگر یہ انتظام نہ ہو سکے تو مدرسہ بند کر دیں ـ ایسے مدرسہ ہی کی کچھ ضرورت نہیں ہے ـ جتنا کام خود ہو سکے تم اسی کے مکلف ہو اور اگر میں ایسے خطوط لکھنے لگوں تو جن معتقدین کو خطوط لکھنے کی فرمائش کی جاتی ہے ان میں سے ایک بھی متعقد نہ رہے ـ یہ سب اعتقاد اسی وقت تک ہے جب تک معلوم ہے کہ یہ کسی قسم کی درخواست نہیں کرتا ـ جامع نے عرض کیا کہ حضرت والا کے معتقدین تو ایسے نہیں ہیں ـ فرمایا مولانا فضل الرحمن صاحبؒ کے لوگ بیحد معتقد تھے ـ اتنے شاید ہی کسی کے ہوں ان سے ایک عرب خط لکھوا کر کانپور کے ایک وکیل کے پاس لائے ـ مولانا نے لکھ دیا تھا کہ اس کو دس روپیہ سے کم نہ دینا ـ وکیل صاحب حالانکہ بہت معتقد تھے اور مالدار بھی تھے ـ مگر پہلے تو یہ عذر کیا کہ یہ خط مولانا کا نہیں ہے حالانکہ یقینا مولانا کا خط تھا ـ جب اس پر بھی اس نے پیچھا نہ چھوڑا تو نوسکر سے کہدیا کہ جب یہ شخص آوے اس کو اندر نہ آنے دو ـ