ملفوظات حکیم الامت جلد 14 - یونیکوڈ |
|
کیا ـ حالانکہ آسان بات تھی ـ جواب میں فرمایا کہ جو بات تمہاری سمجھ میں نہ آوے ـ اس کو اپنے اساتذہ سے دریافت کرو یہ مجلس قیل وقال کی نہیں ہے ـ جمعہ فی القری جائز نہیں : (146) فرمایا ـ میرا ارادہ تھا کہ ایک رسالہ احکام معاملات میں ایسا لکھوں کہ جن معالات میں عوام ہیں اگر وہ صورتیں کسی مذہب میں بھی جائز ہوں تو اس کی اجازت دے دوں تاکہ مسلمانوں کا فعل کسی طرح سے تو صحیح ہو سکے ـ میں نے احتیاطا اس کے بارہ میں حضرت مولانا گنگوہیؒ سے بھی دریافت کیا کہ ایسے مسائل میں دوسرے مذہب پر فتوی دینا جائز ہے ـ یا نہیں ـ تو حضرت نے بھی اجازت دے دی ـ مولانا بہت پختہ حنفی تھے مگر عوام پر شفقت بھی بہت تھی ـ پھر میں ایسا رسالہ تو نہیں لکھ سکا کیوں کہ میں نے اہل معاملہ سے سوالات جمع کرنے کی درخواست کی تھی کسی نے توجہ نہ کی مگر تاہم ایسے بعض بعض مسائل حوادث الفتاوی میں آ گئے ہیں ـ اور یہ توسع معاملات میں کیا گیا دیانات میں نہیں اس میں کچھ اضطرار نہیں ـ اسی لئے جمعہ فی القری میں محض ابتلاء عوام کے سبب ایسا توسع نہیں کیا ـ البتہ اگر حضرت امام شافعی کے قول پر احتیاط ہوتی تو فتوی دے دیتا مگر احتیاط حنفی مذہب میں ہے ـ کیونکہ جس مقام کے مصر اور قریہ ہونے میں اختلاف ہو اگر وہ مصر ہی ہو اور اس میں کوئی ظہر پڑھے تو فرض ذمہ سے ساقط ہو جائے گا گو کراہت ہو گی اور اگر وہ قریہ ہے اور وہاں جمعہ پڑھا تو جمعہ بھی نہ ہوا ـ اور ظہر بھی ساقط نہ ہوئی اس لئے ایسے مقام میں احتیاط ترک جمعہ ہی میں ہے ـ دوسرے یہ کہ ابتلاء بھی بدرجہ اضطرر نہیں کیونکہ لوگ چھوڑ سکتے ہیں ـ اگر جمعہ نہ پڑھیں تو کوئی تکلیف نہ ہوگی ـ بلکہ اور زیادہ آرام ہو گا ـ اذان زائد نہیں ـ خطبہ نہیں ـ ہاں مگر پیر جی اور مولوی جی کی آمدنی بند ہو