ملفوظات حکیم الامت جلد 14 - یونیکوڈ |
|
اور ایک سیر لوکاٹ سہارنپور سے حضرت والا کے واسطے لائے ) فرمایا ـ حج کے جانے والے کو پیسہ پیسہ کا خیال رکھنا چاہیے لوکاٹ نہ تقسیم کرنا چاہیے ـ میں جب حج کو گیا تو مکہ معظمہ میں خرچ اس قدر کم رہ گیا کہ مجھ کو قرض لینے کی ضرورت محسوس ہوئی ـ ایک صاحب مقیم مکہ بہت بڑے محب تھے جن سے مجھ کو قوی امید تھی کہ انکار نہ کریں گے ان سے سو روپیہ مانگے تو انکار کر دیا ـ پھر خیال ہوا کہ چلو راستہ میں جب کمی پڑے گی تب دیکھا جائے گا ـ کسی رفیق سفر سے مانگ لیں گے ـ جہاز کا کرایہ بھی کچھ گراں ہو گیا تھا ـ جب جدہ پہنچے تو جس جہاز کو سن کر آئے تھے اس کا ٹکٹ بند ہو گیا تھا ـ مگر ہم لوگ جہاز کے دفتر میں چلے ہی آئے ـ جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ ٹکٹ پھر کھل چکا ہے ـ کرایہ دریافت کیا تو اس نے ہمارے حساب سے زیادہ مانگا ہم نے کہا ہمارے پاس صرف اتنا ہے کہ 8 روپیہ نیچے کے ـ 20 روپیہ چھتری کے آٹھ روپیہ کوٹھڑی کے دے سکتے ہیں ـ اس سے زیادہ نہیں دے سکتے کہنے لگا خیر لاؤ بھی سہی ہم جب مکہ سے چلے تھے تو حضرت حاجی صاحبؒ سے عرض کیا تھا کہ کرایہ زیادہ سنا ہے اور خرچ کم ہے حضرت نے فرمایا کہ کبھی کرایہ کم بھی ہو جاتا ہے ـ چنانچہ ایسا ہی ہوا ـ ہم جدہ سے بمبئی پہنچ گئے ـ پھر بمبئی اتر کر ایک جگہ ٹھہر گئے ـ حضرت نے ایک دستی خط ایک سیٹھ کے نام لکھ دیا تھا کہ دو ہمراہی مسکین عورتوں کو ریل کا ٹکٹ دلا دینا میں نے ہمراہیوں سے کہا کہ میں ان کے پاس ابتدا نہیں جاتا تم پہلے جاؤ اگر وہ متوجہ ہوں تو خط دینا ورنہ حضرت کے خط کی بے قدری نہ کرانا ـ مسکینوں کا اللہ مالک ہے ـ تو سیٹھ نے پوچھا کہ کون کون ہیں انہوں نے بتلایا تو وہ سیٹھ خود آ کر مجھ کو اپنے یہاں لے گئے اور بہت خاطر سے پیش آئے ـ جب ہم بمبئی سے روانہ ہو نے لگے میرا خرچ بالکل ختم ہو چکا