کان یؤل بہ رؤیاہ وہذا ما ابقاہ اﷲ تعالیٰ علی الامۃ من اجزاء النبوۃ فان مطلق النبوۃ لم یرفع وانما ارتفع نبوۃ التشریعی کما یؤیدہ حدیث من حفظ للقرآن فقد ادرکت النبوۃ بین جنبیہ (الیواقیت والجواہر)‘‘ اور اسی لئے اس کے ساتھ آپ کے رؤیا کی تاویل کی جاتی ہے اور یہ رویا وہ چیز ہے جو اجزائے نبوت میں سے اﷲتعالیٰ نے امت پر باقی رکھی ہے۔ کیونکہ مطلق نبوت نہیں اٹھائی گئی۔ بلکہ نبوت تشریعی اٹھالی گئی ہے۔ جیسا کہ اس کی تائید یہ حدیث کرتی ہے کہ جو شخص قرآن کی حفاظت کرتا ہے۔ نبوت اس کے دونوں پہلوؤں میں داخل کی جاتی ہے۔ اجزائے نبوت کو کون بند مانتا ہے۔ مگر جس شخص میں اجزائے نبوت پائے جاتے ہیں کیا وہ نبی بن جاتا ہے؟
مرزائیو! پھر تو بڑی دقت پیش آئے گی اس لئے کہ اس صورت میں قرآن کے حافظوں اور ان لوگوں کو جن کو سچی خوابیں آتی ہیں۔ تمام کونبی ماننا پڑے گا۔ کیونکہ حفاظت قرآن رؤیا صادقہ بھی اجزائے نبوت سے ہیں۔ لہٰذا جس شخص میں یہ چیزیں پائی جاویں مرزائیوں کو چاہئے کہ اس کو نبی تسلیم کریں۔ مگر یاد رہے کہ یہ دونوں چیزیں راقم الحروف میں علی وجہ الاکمل پائی جاتی ہیں۔ یعنی میں حافظ قرآن بھی ہوں اور کئی دفعہ سچی خوابیں بھی آتی ہیں۔کیا مرزائیو! مجھ کو بھی نبی مانو گے؟ ہاں تم جیسے احمقوں سے یہ بھی کوئی بعید نہیں۔ اس لئے کہ تم نے اس شخص کو نبی مقدس تسلیم کر لیا جس کو نہ صحت جسمانی حاصل تھی نہ روحانی اور خدا کے فضل وکرم سے مجھ کو یہ دونوں حاصل ہیں۔ مزید برآں میں حافظ قرآن بھی ہوں اور مرزاقادیانی اس نعمت عظمیٰ سے قطعی محروم تھے۔
ہم اجماع امت کے بیان میں امام شعرانی کی اصل عبارت نقل کر آئے ہیں۔ جس میں امام موصوف فرماتے ہیں کہ حضور کے بعد مدعی نبوت اگر مراقی وغیرہ نہ ہو تو اس کی گردن اڑادی جائے گی اور اگر مراقی ہو تو معذور سمجھ کر چھوڑ دینا چاہئے۔ علاوہ ازیں مرزائی حضرت محی الدین ابن عربی اور ملا علی قاری کی عبارات پیش کرتے ہیں۔ مگر پہلے ہم ثابت کر آئے ہیں کہ یہ بزرگ بھی ہر مدعی نبوت کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتے ہیں:
’’وآخردعونا ان الحمدﷲ رب العالمین وصل اﷲ تعالیٰ علی رسولہ خاتم النبیین وآلہ وصحبہ اجمعین‘‘
گفتگو آئین درویشی نہ بود
ورنہ باتو ما جراہا داشتیم